کیا سوشل میڈیا اتنا طاقتور ہو گیا؟

موجودہ حکومت جس کا سہارا لیکر مسندِ اقتدار تک پہنچی ہے آج وہی سہارا اس کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا ہو، پرنٹ میڈیا ہو یا سوشل میڈیا، تینوں میڈیا 24 گھنٹوں میں سے تیس تیس گھنٹے پی ٹی آئی کی مہم چلاتے نظر آتے تھے۔ اخبارات ہوں یا ٹی وی چینل، ان کو سوائے پی ٹی آئی کی تحریک چلانے اور اس مہم کی بے پناہ مصروفیت کی وجہ سے اپنا سر تک کھجانے کی فرصت نہیں ملا کرتی تھی۔

ہر حکومت کی طرح نواز حکومت نے بھی اس بات کی کوشش کی تھی کہ کسی نہ کسی طرح میڈیا کی آزادی کے پَر تراشے جائیں لیکن وہ اس میں ناکام رہی۔ میڈیا کے پَر تراشنے میں اگر 100 فیصد کوئی دورِ حکومت کامیاب رہا تھا تو وہ بھٹو دور تھا جب اخبارات میں صرف اور صرف قینچیاں چھپی نظر آیا کرتی تھیں ورنہ تقریباً ہر دور میں صحافیوں نے ہمت اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اخبارات کا بند ہوجانا یا اپنے آپ کی گرفتاریاں دینا تو گوارا کر لیا تھا لیکن حق اور سچ کی آواز کو حلق میں گھونٹ لینے کو پسند نہیں کیا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت جتنے بھی آزاد چینل نظر آتے ہیں وہ آزاد کم اور کسی نہ کسی کے ترجمان زیادہ ہیں لیکن کیونکہ ان کو کچھ نہ کچھ قانونی حقوق حاصل ہیں اس لیے اکثر وہ حق اور سچ کو بھی زبان پر لانے سے گریز نہیں کرتے۔ پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ جو حکومت بھی آزادی صحافت کے علمبرداروں کے کندھوں پر سوار ہو کر آتی ہے وہ اقتدار میں آنے کے بعد اس بات کی خواہشمند ہو جاتی ہے کہ آزاد میڈیا اب اس کے احکامات کا پابند ہو کر رہ جائے اور عوام تک حق اور سچ کی آواز کو نہ پہنچنے دے۔ اسی طرح کی خواہش موجودہ حکومت کی جانب سے بھی دیکھنے میں آ رہی ہے اور وہ اس بات کی جانب تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے کہ میڈیا اس کا “جی آیا نوں” بن کر رہ جائے۔

آزاد چینل تو کسی نہ کسی حد تک پھر بھی اپنے محتاط رویے کی وجہ سے حکومتوں کے خلاف بہت کھل کر سامنے نہیں آیا کرتے اس لیے کہ انھیں اپنی اپنی دکانیں چمکانے کیلیے بہر حال حکومتوں کے سہاروں کی ضرورت ہوا ہی کر تی ہے لیکن اس میدان میں بھی سارے کے سارے “جی آیا نوں” والے تو نہیں ہوا کرتے۔ یہی وہ افراد یا چینل ہوتے ہیں جو ہر حکمران کو سخت ناگوار گزرتے ہیں اس لیے کہ ہر حاکم یہ چاہتا ہے کہ وہ ملا دو پیازہ اور بیر بل بن کر ہمیشہ “آپ کا اقبال بلند ہو” کا نعرہ لگاتا رہے۔

پاکستان کے اخبارات اور آزاد چینلوں کو تو پھر بھی کسی نہ کسی ڈر یا لالچ کی وجہ سے حکومتیں قابو کر ہی لیا کرتی ہیں لیکن “سوشل میڈیا” ایک ایسا عذاب ہے جو ہر حکومت پر بم پر بم پھاڑتا رہتا ہے۔ حالانکہ گزشتہ دنوں سب سے زیادہ سوشل میڈیا ہی تھا جس پر موجودہ حکومت کے ہمدردوں کا راج تھا اور ایسا لگتا تھا کہ ان کا مقابلہ ممکن نہیں۔ یہی نہیں خود وزیر اعظم کا سب سے بڑا ہتھیار بھی اب تک یہی میڈیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر مخالف کا منھ بند کرنے اور اپنے خلاف ہونے والے ہر قسم کے پروپیگنڈے کا جواب بہت بھر پور طریقے سے دیتے آئے ہیں۔

وزیر اعظم نے اب تک کشمیر ہو، فلسطین ہو، یا برما کا محاذ، ہر جنگ انھوں نے نہ صرف اسی سوشل میڈیا پر لڑی ہے بلکہ فتوحات کے جھنڈوں پر جھنڈے گاڑتے چلے آئے ہیں۔ اگر سوشل میڈیا کی پوری ہسٹری سامنے رکھی جائے تو دنیا کے سارے حکمرانوں میں عمران خان ہی وہ واحد حکمران ہیں جو نہایت کامیابی کے ساتھ یہ ساری جنگیں لڑتے اور جیت تے رہے ہیں۔ ایک ایسا میڈیا جس کا پاکستان سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ دنیا بھر کے ان افراد کے استعمال میں ہے جن کی ان کے ملک کا میڈیا سننے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتا وہ اپنے دل کے پھپھولے اسی میڈیا پر بیٹھ کر پھوڑنے کے بعد اپنے دل کا بوجھ کم کر لیا کرتے ہیں۔

بے شک وہ بہت سارے مقامات پر کسی زیادتی کے بھی مرتکب ہوتے ہونگے اور اپنے اپنے ممالک کے بہت سارے اداروں پر سنگین الزامات بھی عائد کرتے ہونگے لیکن یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ کسی کے بھی سوشل میڈیا پر دل کے چھالے پھوڑنے سے کسی ملک کی سلامتی کو کیا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ کیا حکومت یا کسی ادارے کے متعلق جھوٹی باتیں بیان کرنے یا الزامات لگانے کسی ادارے کی ساکھ یا ملک کی سلامتی خطرے میں ڈالی جاسکتی ہے؟۔ کیا امریکا، روس، جاپان، چین یا پاکستان کا بخیہ ادھیڑنے سے ان ممالک کی پوشاکیں لیر لیر ہو سکتی ہیں، کیا ان سب ممالک میں موجود حساس ادارے دنیا میں اپنی ساکھ سے محروم کیے جا سکتے ہیں؟۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو نہ جانے دنیا کے طاقتور ترین ممالک کب کے اپنی طاقت کھو چکے ہوتے اور یہ سارے ممالک کب کے تباہ و برباد ہو چکے ہوتے۔

خبروں کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا کا قانون قومی سلامتی کے تحفظ کے پیش نظر بنایا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے منگل کو سوشل میڈیا کے مجوزہ قوانین پر نظرثانی اجلاس کی صدارت کی جس میں سوشل میڈیا کے قوانین پر ردعمل کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ قانون لانے کا بنیادی مقصد شہریوں کا تحفظ کرنا ہے اور یہ قانون بچوں، اقلیتوں، مذہبی معاملات کے تحفظ کیے لیے بھی بنایا جا رہاہے۔

ہم ان کی نیک نیتی پر شبہ نہیں کرتے لیکن اس بات سے بھی اتفاق نہیں کرتے کہ سوشل میڈیا، ملک کے عام الیکٹرونک یا پرنٹ میڈیا سے زیادہ ملک و قوم کی سلامتی کیلئے خطرہ ہو سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا میڈیا ہے جس پر چلنے والی کسی بھی خبر کی حقانیت کوئی فرد بھی اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک دنیا کے دیگر آزاد ذرائع سے خبروں کی تصدیق نہ ہوجائے۔ رہے وہ افراد جو خوامخواہ کسی ادارے یا کسی حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اول تو انھیں اتنی اہمیت ہی نہیں دینی چاہیے کہ وہ خوامخواہ میڈیا کی زینت بن جائیں اور اگر وہ واقعی ایسے پرپیگنڈے میں ملوث ہیں جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہے اور واقعی کسی ادارے یا ریاست کی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے تو ایسے فرد کو تلاش کرلینا اب کوئی ایسی بات نہیں رہی جو ناممکنات میں سے ہو، لہٰذا پابندیاں لگانے کی بجائے ایسے تمام افراد کے خلاف نہ صرف بھرپور کارروائیاں کی جائیں بلکہ انھیں قرار واقعی سزائیں بھی دی جائیں۔

اسی قسم کی پابندیوں کے متعلق انٹر نیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل جیریمی ڈیئر نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر پابندی کی بات نہایت غلط ہے۔ اسے تو مثبت استعمال کی طرف راغب کیا جانا چاہیے۔ ایسے کاموں سے حکومتوں کو کچھ نہیں ملتا۔ دنیا بھر میں پرنٹ نیوز پیپرز بحران کا شکار ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ موبائل ٹیکنالوجی عام میڈیا سے ڈیڑھ سو فیصد تیز ہے۔ اور لوگ تیز رفتار خبر کی تلاش میں رہتے ہیں۔ تاہم پرنٹ میڈیا کو خبر پر تحقیق کر کے اصل اور صحیح خبر لگانے کے لیے کافی وقت ملتا ہے اور وہ چونکہ زیادہ ذمے دار ہے اس لیے صحیح خبر بھی دستیاب ہے۔ لیکن ڈیجیٹل میڈیا بھی ایک حقیقت ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

دنیا میں کونسی بڑی سے بڑی ہستی ایسی ہے جس کے متعلق ان کے مخالفین نہایت سنگین الزامات کی بوچھاڑ نہ کرتے رہے ہوں۔ آج کے جدید دور میں تو خبریں پھیلانے کے نہ صرف لاکھوں ذرائع ہیں بلکہ وہ سب کے سب اتنے تیز رفتار ہیں کہ ایک سیکنڈ کے ایک لاکھویں حصے سے بھی کم وقت میں پوری دنیا میں پھیلا دیتے ہیں لیکن جس زمانے میں اس قسم کا ایک بھی ذریعہ نہیں تھا تب بھی مخالفین اپنی سی پوری کوشش کرتے تھے کہ یا تو حق گو زندہ ہی نہ رہے یا اس کے خلاف معاشرے میں اتنی غلط فہمیاں پیدا کردی جائیں کہ اس کا پیغام عام نہ ہو سکے۔

ان تمام تر رکاوٹوں کے باوجود جو پیغام مبنی بر حق ہوتا ہے اور پیغام پہچانے والے اپنے عزم میں ثابت قدم ہوتے ہیں وہ دنیا میں لازماً چھا جاتے ہیں۔ اپنے پیغام میں سچا و مخلص ہونا اور پھر اس پر ثابت قدم رہنا ہی رہرؤں کو ان کی منزل تک پہنچا دیا کرتا ہے اس لیے موجودہ حکومت سے یہی گزارش کی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے میڈیا کے (اپنی نقطہ نظر کے مطابق) مخالفانہ رد عمل سے نہ تو خوفزدہ ہو اور نہ ہی ان پر بیجا پابندیاں عائد کرنے کے متعلق غور کرے۔

جو بات کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے وعدوں اور دعوؤں پر غور کرے۔ ساتھ ہی ساتھ اس بات پر کڑی نظر رکھے کہ آپ کے اپنے اندر کون کون سی ایسی کالی بھیڑیں ہیں جو آپ کو حقائق سے دور رکھے ہوئے ہیں۔ اگر آپ نے اپنے وعدوں اور دعوؤں کے مطابق عمل کیا اور کالی بھیڑوں کی خوشامدانہ باتوں میں آنے کی بجائے ان پر بھرپور نظر رکھی تو پھر آپ کو کسی بھی قسم کے میڈیا پر کوئی پابندی لگانے کی ضرورت نہیں پڑی گی اس لئے کہ رات کو کوئی لاکھ دن اور دن کو کوئی لاکھ رات ثابت کرنے کی کوشش کرے، رات رات اور دن دن ہی رہے گا۔

لہٰذا نہ ڈریں اور نہ ہی گھبرائیں، سوشل میڈیا ہو یا آزاد چینل و اخبارات، لوگوں کو ان پر اپنے جذبات کا اظہار کرنے دیں اگر نظر رکھنا ہے تو صرف اور صرف حد سے گزرجانے والوں پر رکھیں اور ان کو قانونی حدود کا پابند بنائیں۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر ہر قسم کے غلط پروپیگنڈے کا دفاع کیا جاسکتا ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں