غربت میں موت آنی باقی ہے

وقت بدل گیا، زمانے بدل گئے، حکمراں بدل گئے مگر نہ بدلے تو پاکستانیوں کے حالات نہ بدلے اور عوام کل بھی مصائب اور مسائل کی یلغار میں آہ وفغاں کرتے نظر آتے تھے، آج بھی مہنگائی اور بیروزگاری کا رونا رو رہے ہیں۔ غرض کہ عوام کے مصائب کا سفر نہ کبھی رکا اور نہ کبھی تھما، جبکہ مصائب کی یلغار کی بنیادی وجہ ہماری مالی اور معاشی بدحالی ہے۔واضح رہے کہ میں عوام بالخصوص غریب عوام کی بات کررہا ہوں، اشرافیہ کی نہیں کیونکہ اشرافیہ کی ہر زمانے میںپانچوں انگلیاں گھی میںہوتی ہیں۔ نیا پاکستان اور ترقی یافتہ پاکستان کا سنہری خواب دکھاکر عمران خان کی حکومت وجود میںآئی اور نئے پاکستان کے حکمرانوں نے ٹیکس اور قیمتیں بڑھانے کو نیا پاکستان کا نام دیدیا۔ انرجی پیٹرولیم مصنوعات اور ڈالر کی قیمتوں میں اضافہ حکومت کی مجبوری تھی۔

وزیراعظم عمران خان مسلسل اس صورتحال کا ذمہ دار پچھلی حکومتوں کو قرار دے رہے ہیں اور عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ موجودہ صورتحال عارضی ہے اور ملک جلد مشکل معاشی صورتحال سے نکل جائے گا، مگر وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ مہنگائی کی موجودہ لہر کیسے تھمے گی؟ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان عوام کوریلیف کیسے ملے گا؟ ادویات، بجلی، گیس، تیل اور خوراک کی قیمتیں دوبارہ کیسے اور کتنے عرصے میں واپس ان کی پہنچ میںآئیںگی؟

مگر تحریک انصاف کی حکومت کے پاس ان سوالات کے ٹھوس جوابات نہیں ہیں۔ اس حکومت کے پاس تمام سوالات کا جواب ایک ہی ہے کہ اس وقت جو کچھ ہورہا ہے، اس کی ذمہ داری پچھلی حکومتوںپر عائد ہوتی ہے۔موجودہ حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔ جبکہ اس وقت بھی یہ صورتحال نہ تھی۔

تحریک انصاف حکومت کی ناقص کارکردگی اور نااہلی اسٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ سے ظاہر ہوگئی ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی گورنمنٹ نے سال رواںکے دوران 7 ہزار ارب روپے کا ریکارڈ قرضہ حاصل کیا ہے۔ اگست 2018 سے اگست 2019 کے دوران 4 ہزار 705ارب روپے مقامی اور 2 ہزار 804 ارب روپے غیرملکی قرضہ حاصل کیا گیا۔ حکمرانوں نے عوام کو شدید مایوس کیا ہے اور ہر محاذ پر ناکامی حکومت کا مقدر بنی ہے۔ ادویات کی قیمتیں مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ایک سال کے دوران چوتھی بار قیمتوں میںاضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت کی رٹ عملاً ختم ہوچکی ہے اور پرائس چیک اینڈ کنٹرول کرنے والے ادارے بھی بے بس نظر آتے ہیں۔

میڈیسن کمپنیوں نے شوگر، بلڈ پریشر، السر اور دیگر بیماریوں کی ادویات کئی گنا زیادہ مہنگی کردی ہیں۔علاج معالجے کی بنیادی سہولتیںبھی عوام کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہیں۔

اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے عوام مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ایک طرف ڈالر کی اونچی اڑان جاری ہے، تو دوسری طرف اشیائے خوردونوش اور روزانہ استعمال میں آنے والی دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی قابو سے باہر ہیں۔ گیس کی قیمت میں اوگرا نے 47 فیصد مزید اضافہ کردیا ہے۔ دوسری طرف میڈیا رپورٹس کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں 15 فیصد اضافہ کردیا ہے۔ادویات کی قیمتیں پہلے ہی آسمان سے باتیںکررہی ہیں اور حکومت کی تمام تر بڑھک بازی کے باوجود ادویات کی قیمتیں اس حد تک کم نہیں ہوئیں جس کا حکومت نے دعویٰ کیا تھا۔ حکومت مسلسل تیل کی قیمتیں بھی بڑھاتی جارہی ہے۔ حکومتی پالیسیوںاور اقدامات کے نتیجے میںپاکستان کے عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ گیس کی مسلسل لوڈشیڈنگ جاری ہے۔CNG بند ہے ،جس سے مزید بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔

معاشی ترقی کا شور مچانے والے شاید غریب کی چیخیں سننا ہی نہیں چاہتے کہ وہ کس حال میں جی رہے ہیں؟ ان کی صبح کس طرح ہوتی ہے اور ان کے گھروںمیں رات کو کیا قیامت کے مناظر ہوتے ہیں؟بچوںکے دودھ سے لیکر گھر کے راشن تک کے معاملات میں گھروں میں لڑائی جھگڑے عام ہوتے جارہے ہیں۔15 ہزار روپے ماہانہ کمانے والا شخص کس طرح اپنے گھریلو اخراجات پورے کررہا ہے؟ یہ وہی جانتا ہے یا پھر اس کا خدا جانتا ہے، کوئی نہیں جانتا تو بس حاکم وقت نہیں جانتا۔

ہمارے موجودہ حاکم وقت کو جہاں ہربات میڈیا کے ذریعے معلوم ہوتی ہے، وہیں ٹوئٹر کے ذریعے بیان داغ کر اپنا فرض پورا کرنا آتا ہے۔ ملک میں مہنگائی کا رونا کوئی نئی بات نہیں۔ ہر حکومت نے اپنے اپنے حصے کی مہنگائی کی اور اپنے اپنے مفادات سمیٹ کر چلتی بنی۔لیکن موجودہ حکومت نے مہنگائی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔

ان مسائل میںسے ایک مسئلہ مہنگائی کا ہے، جس نے غریب عوام کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ ایک مہنگائی وہ ہے جو سرمایہ دارانہ نظام سے جڑی ہوئی ہے، اس مہنگائی کو کوئی مائی کا لال اس وقت تک ختم نہیں کرسکتا جب تک سرمایہ دارانہ نظام باقی ہے لیکن بعض عوامی مسائل ایسے ہیں، جنہیں ایک منظم طریقے سے عمل پیرا ہوکر ختم نہ سہی کم کیا جاسکتا ہے۔

دو وقت کی روٹی کمانے کیلئے عام آدمی کی ٹانگیں جواب دے جاتی ہیں ،لیکن یہ مہنگائی قابو میں نہیں آتی۔ اگر حکومت میں عوام دوست نظریاتی لوگ موجود ہوں تو اس مہنگائی کے گلے میں رسی ڈالی جاسکتی ہے۔ مگر عام طور پر روزمرہ استعمال کی اشیاء سبزی، گوشت، انڈے وغیرہ ہیں، ہم غریب طبقات کی غیرمشروط حمایت کرتے آئے ہیں ،لیکن زیادہ سے زیادہ کمانے کی خواہش غریب کو غریب کے استحصال پر مجبور کردیتی ہے۔

یہ اس شیطانی نظام کا کارنامہ ہے جسے دنیا سرمایہ دارانہ نظام کے نام سے جانتی ہے۔ اس نظام میں نچلی سطح پر بھی قیمتوں میں کمی بیشی کا ایک ایسا سلسلہ جاری رہتا ہے ،جو عام آدمی کیلئے مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ہمارے ملک میں قیمتوںکو کنٹرول کرنے کیلئے پرائس کنٹرول کمیشن کے نام پر ہزاروں اہلکاروں پر مشتمل ایک محکمہ قائم ہے، اس محکمے کا کام اشیائے صرف کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہے۔ مگر یہ محکمہ بھی مکمل ناکام ہے کیونکہ نااہل افسران میڈیا ٹاک کیلئے موجود ہوتے ہیں مگر عوام کیلئے ہیں۔

عوام کو آج دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں، غربت کا یہ عالم ہے کہ پہلے لوگ اپنے بچوں کو فروخت کیا کرتے تھے ،مگر اب بچے خود ہی بھوک سے مررہے ہیں۔ آج لوگوںکے حالات زندگی اس نہج پر آپہنچے ہیں کہ25 روپے کی چینی اور10 روپے کی پتی خرید کر صبح کا ناشتہ کررہے ہیں۔ کئی گھرانے تو اس سے بھی محروم ہیں۔

مسائل کے خاتمے کیلئے غریب کو مرنا ہوگا۔ اس کام کو سرانجام دینے کیلئے حاکم وقت کے پاس انتہائی ایماندار کابینہ موجود ہے، جو نت نئے طریقوں سے عوام کو روزانہ تھوڑا تھوڑا مار کر اپنے آقا کی خوشنودی حاصل کرنے میں مگن ہیں۔

میں ایک عام آدمی ہوں اور اس وقت جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو شدید مایوس ہوںکہ اس کا فائدہ کیاہوگا؟ کیونکہ ایسی ہزاروں تحریریں موجود ہیں جوکہ صرف کاغذات کی حد تک محدود ہیں، مگر امید ہے کہ انسان کہنے والے، انسان بن کر انسان کی فلاح کیلئے کام کریں، انشاء اللہ، آمین۔

جواب چھوڑ دیں