پاکستان سپر لیگ 2020 گیند بلا امن کا ہلا

ہمارے ادارے خصوصی طور پر قانون نافذ کرنے والوں کی جانی و مالی قربانیوں کی بدولت ملک میں کسی حد تک استحکام دیکھائی دے رہا ہے، جس کا منہ بولتا ثبوت دنیا کے ان ممالک سے روابط جوکہ ایک زمانے سے کسی راز سے زیادہ نہیں دیکھائی دیتے تھے، اب باقاعدہ بالمشافہ ملاقاتوں میں تبدیل ہورہے ہیں۔ عرصہ دراز کے بعد پاکستان میں دنیا جہان کے اعلی عہدیداران اور ممالک کے سربراہان آرہے ہیںاور پاکستان کیساتھ خیرسگالی کے اظہار کیساتھ ساتھ معاشی استحکام کیلیے بھی اپنی خدمات بڑھ چڑھ کر پیش کر رہے ہیں ۔

گرانقدر ایشائی ممالک میں چین کی حیثیت تو نمایاں ہے لیکن ملائیشیاء کے مہاتیر محمد اور ترکی سے طیب اردوان کے دورے پاکستانی قوم کیلیے ناقابل فراموش ہیں ، انکے ساتھ ہی دنیا کے ایک اور اہم ادارے کی اہم ترین شخصیت اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینتونیو گوتریس بھی پاکستان کا دورہ کیے بغیر نا رہ سکے اور انہوں نےناصرف پاکستان میں امن کیلیے کیے جانے والے اقدامات کو سراہا بلکہ اقوام متحدہ کی امن فوج میں پاکستانی فوجیوں کی خدمات کا بھی اعتراف کیا ، پاکستان کی جانب سے افغانستان سے آئے مہاجرین کیساتھ بہترین برتائو کو بھی سراہا۔

پاکستان کے پرامن استحکام کیلیے جہاں سفارتی اور عسکری اداروں نے اپنی جانفشانی سے کام کیا وہیں ایک اور ادارہ ایسا ہے کہ جس نے اس پر امن فضاء کیلیے گیند اور بلے کے سہارے سنگلاخ پہاڑوں ، ریگستانوں ، چٹیل میدانوں ، گنجان آباد آبادیوں میں امن کی شمعیں روشن کیں اور انہیں روشن رکھنے کی ہر ممکن کوشش جاری رکھی۔ دہشت گردی سے دہشت زدہ چہروں پر خوشیاں بکھیرنے کیلیے چھکے اور چوکوں سے رنگ جمائے، گلی محلوں میں برقی قمقموں سے، قندیل کی روشنیوں سے میدان سجائے۔

پاکستان حقیقت میں کھیلوں سے بھرپور محبت کرنے والاایک ملک ہے یہاں کے لوگوں کو اگربنیادی سہولیات میسر آجائیں تو یہ دنیا کہ ہر کھیل کے میدان میں پاکستان کے جھنڈے گاڑ دیں۔ یوں تو پاکستان میں سارے کھیل ہی کھیلے جاتے ہیں جیسا کہ ابھی ایک غیر معروف کھیل اسکریبل میں کراچی سے تعلق رکھنے والے معیز اللہ بیگ نے جونئیر عالمی چیمپین شپ اپنے اور اپنے وطن پاکستان کے نام کی اور سبز ہلالی پرچم کی عزت و تکریم میں اضافہ کیا ، ابھی کچھ دن پہلے ہی پاکستان میں منعقد ہونے والے پہلے کبڈی کے عالمی کپ کی ناصرف میزبانی کی اوربلکہ اس کھیل میں بھی اپنی دھاگ بیٹھاتے ہوئے عالمی چیمپئین ہونے کا اعزاز اپنے روائتی حریف بھارت کو شکست دے کر حاصل کیا، جس نے اہلیان وطن کی خوشی کو دوبالا کردیا۔

پاکستان کو درپیش عالمی دہشت گردی سے نکال کر پرامن ملک بنانے والوں کو ہم ہمیشہ خراج عقیدت پیش کرتے رہینگے، ہم ہر اس خون کے قطرے کا خود کو مقروض سمجھتے ہوئے اسکی مقصد قربانی کی حفاظت کرتے رہینگے، ہم دشمن کی تمام تدبیروں کو اپنی زندگیاں قربان کرکے ناکام بنانے والوں کو کبھی نہیں بھولینگے اورکبھی کرکٹ کے میدان میں ، کبھی کبڈی کے اکھاڑے میں تو کبھی فضائی نگہبانی میں ،ہم انشاء اللہ ہر میدان میں دشمن کے دانت کھٹے کرتے رہینگے۔جیساکہ ہم پاکستانی خوب جانتے ہیں کہ کرکٹ ہماری رگوں میں دوڑ رہی ہے ہم کھیلنے کی سکت بھلے ہی نا رکھتے ہوں لیکن سننے اور دیکھنے سے باز رہ ہی نہیں سکتے بلکہ ہمارا تو بس نہیں چلتا پوری پاکستانی قوم کرکٹ کی ٹیم کی کوچ بن جائے۔

پاکستان سپرلیگ کا پانچواں ایڈیشن جوکہ مکمل پاکستان میں منعقد ہونے جارہا ہے ۔ میزبان شہروں میں کراچی ، لاہور، رالپنڈی اور ملتان میں مقابلے منعقد ہونگے، ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ جیسے جیسے یہ سلسلہ آگے بڑھے گا دیگر شہروں کو بھی مقابلے کی میزبانی دی جائے گی ۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ جن شہروں میں معیاری یعنی بین الاقوامی معیار کے اسٹیڈیم موجود نہیں ہیں، اب ان شہروں کی انتظامیہ بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کی معاونت سے ایسے اسٹیڈیم کی تیاری پر کام شروع کردینگی جوکہ ایک مثبت تبدیلی کی جانب بتدریج پیش قدمی ہوگی۔

۲۰ فروری ۲۰۲۰(دیکھیں تو دو کا ہندسا غالب ہے) کو جشن پاکستان سپرلیگ کا ناصرف افتتاح ہوگا بلکہ چار سال پہلے دیکھے گئے خواب کو عملی جامہ بھی پہنایا جائے گا اور پاکستان سپر لیگ کو پاکستان میںبھرپوراردو میں خوش آمدید ،پشتو میں پخیر راغلے ، پنجابی میں جی آیا نوں ، سندھی بھلی کری آیااور بلوچی میں واش اتکے ہے ،بھی کہا جائے گا۔

مضمون ہذا کے صرف دومقاصد ہیں ایک تو ان ہزاروں لوگوں کی قربانیوں کو یاد کرنا کہ جن کی وجہ سے آج پاکستان نے اپنی سمت کا صحیح تعین کیا اور دوسرا پاکستان سپرلیگ کے پانچویں ایڈیشن کیلیے ہماری طرح سے ایک نعرا ” گیند بلا ، امن کا ہلا ” دینا ہے۔ آپ لوگوں کو اگر یہ نعرہ ناصرف اچھالگے بلکہ سمجھ بھی آجائے تو ضرور آگے بڑھائیں اور ہمیں بھی بتائیں۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں