باتیں کرنے سے نہیں، کچھ کرنے سے ہوگا

دنیا نہایت عجیب و غریب لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ نہ جانے کتنے لوگ ہیں جو اپنی غلطی کو تسلیم کر لینے کے باوجود اپنی غلطیوں کو دہرانے سے باز نہیں آیا کرتے اور اس طرح غلطیوں پر غلطیاں کرتے رہنا ان کی عادتِ خاصہ بن جایا کرتی ہے۔ ان سب باتوں کی بنیادی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتی کہ وہ غلطی محسوس کر لینے کے باوجود بھی اپنی غلط عادت کو چھوڑنے کی بجائے کوئی ایسی راہ نکالنے کی تلاش میں ہوتے ہیں جس پر چل کر وہ نہ صرف اپنی عادت کے مطابق اسی غلطی کو دہرا بھی سکیں اور دوسروں کو اس بات کا علم بھی نہیں ہونے دیں کہ ان سے سہواً نہیں بلکہ قصداً کوئی غلطی سرزد ہو چکی ہے۔

جس ملک کے وزیر اعظم کو اپنی مدتِ حکومت کے 60 ماہ میں سے 18 ماہ سے بھی زائد عرصہ گزرجانے کے بعد صرف اس بات کا احساس ہو سکا ہو کہ غریبوں کی چیخیں، کراہیں اور آہیں آسمان تک بلند کرنے کے وہ اور خود ان کی حکومت ذمہ دار ہے، تو باقی بچے رہنے والے 42 ماہ میں کیا وہ صرف اپنے گزرے ہوئے 18 ماہ کی تلافی کرپائیں گے ؟یا پھر غریبوں کو 18 ماہ سے پہلے والی پوزیشن سے پیچھے کی جانب لے کر جا سکیں گے؟

مہنگائی کے متعلق کسی بھی ملک کے سربراہ کا از خود یہ اعتراف کرنا کہ اس میں ان کی اور ان کی حکومت کی کوتاہی ہے، کے بعد اصولاً تو کسی بھی ایسے وزیر اعظم کا وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھے رہنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا اور اگر جواز تلاش بھی کر لیا جائے، تو فوری طور پر جس طرح بھی ممکن ہو، اس کا ازالہ ان پر فرض ہوجاتا ہے۔ جس یوٹیلیٹی اسٹورز پر ہمارے وزیر اعظم “سستی” اشیا فروخت کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں، اس پر مقرر کی جانے والی قیمتوں کے نئے ریٹ وہی ہیں، جو عام مارکیٹ میں چند ہفتے پہلے تک تھے جبکہ ان کی حکومت قائم ہونے سے پہلے وہی تمام چیزیں عام مارکیٹ میں 30 سے 40 فیصد کم قیمت پر بڑی وافر مقدار میں موجود ہوا کرتی تھیں۔ قوم کو اس بات کا یقین کامل تھا کہ کہ تبدیلی سرکار کے آنے کے بعد یہ اشیا ان سے پہلی والی حکومت کے دور سے بھی کم قیمت پر ملا کریں گی، لیکن تمام تر وعدوں اور دعوؤں کے بر عکس لوگوں کو نہ صرف شدید مایوسی کا منھ دیکھنا پڑا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی کربناک چیخیں آسمانوں کو بھی ہلانے لگیں اور نہ جانے کتنے افراد نے مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہوکر نہ صرف اپنی زندگی کو ختم کر لیا ،بلکہ اپنے ساتھ اپنی اولادوں کی زندگیوں کے چراغ بھی گل کر کے رکھ دیئے۔

ایک جانب وزیر اعظم اس بات کے معترف ہیں کہ اس بے تحاشہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سبب وہ خود ہیں، تو دوسری جانب وہ مہنگائی کے حق میں تاویلات بھی پیش کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ کبھی وہ اس کا مجرم گزشتہ حکومتوں اور خاص طور سے مسلم لیگ ن کی حکومت کو ٹھہراتے ہوئے نظر آتے ہیں، تو کبھی ڈالرز کی قدر میں اضافے کو اس کا ذمہ دار بنا کر اپنی کارکردگی پر دبیز پردے ڈال کر اپنی شرمندگی کو چھپانا چاہتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پچھلی حکومتیں ہی سارے فتنے و فساد کی بنیاد اور مہنگائی کی ذمہ دار تھیں، تو ان کی حکومت میں ڈالرز محوِ پرواز کیوں نہیں تھا ؟اور ہر قسم کی اشیائے صرف کی قیمتیں آج کی قیمتوں سے کہیں 200 فیصد اور کہیں 50 فیصد سے کم کیوں تھیں؟ رہی ڈالر کی قدر میں اضافے کی بات تو یہ سب موجودہ حکومت کے ہوتے ہوئے ہوا۔ اسی طرح گیس، بجلی اور پیٹرول کے نرخ میں ہوشربا اضافہ بھی آپ ہی کی حکومت میں ہوا۔ اضافہ تو اپنی جگہ لیکن حکومت میں آنے سے قبل آپ کے دعوے تو اس کے بہت بر عکس تھے اور ڈالر کی قدر میں ایک روپے کا اضافہ یا اشیائے صرف کے نرخ کا بڑھ جانا آپ کے نزدیک حکمرانوں کا چور ہونا گنا جاتا تھا۔ اگر آپ کی ساری تاویلات کو مان بھی لیا جائے کہ مہنگائی کا یہ سارا طوفان گزرجانے والوں ہی کی کوتاہیوں کی وجہ سے بپا ہے، تب بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسا فرد جس کو اس بات کا یقین تھا کہ وہ لازماً تختِ حکومت پر سرفراز ہوگا، تو اس کی نظروں سے یہ بات کیوں پوشیدہ تھی کہ ملک کی معاشی صورت حال اتنی ابتر ہے کہ اگر وہ کرسی اقتدار پر براجمان ہو بھی گیا تو وہ مہنگائی کے آگے نہ صرف بند باندھنے میں ناکام رہے گا؟ بلکہ سیلابی ریلے کے سبب جن جن پشتوں میں شگاف پڑ چکے ہیں، وہ وسیع سے وسیع تر ہوتے جائیں گے۔

دو ہی صورتیں ایسی ہو سکتی ہیں ،جس کی وجہ سے ایسا کچھ نگاہوں سے اوجھل ہو گیا ہو گا۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ آپ کے اس وقت کے مشیران نے ملک کی ابتر صورت حال کی حقیقی تصویر کشی نہیں کی ہوگی یا آپ جانتے تو سب کچھ ہونگے لیکن قوم کو حقیقت بتانے سے اس لئے گریز کر رہے ہونگے کہ قوم آپ کو مسترد کر کے پچھلوں پر ہی اپنے اعتماد کا اظہار کردے۔ ہر دو صورت میں آپ اپنی ذمہ داری سے کسی بھی طور پر بری الذمہ قرار نہیں دیئے جاسکتے۔ اب اگر کوتاہی کا اعتراف کر ہی لیا ہے تو آپ پر نہ صرف اس کا ازالہ فرض ہے، بلکہ مہنگائی کے اس سونامی کے پیچھے جو جو افراد یا مافیائیں ہیں ان پر بھر پور ہاتھ ڈالنا بھی آپ کے فرائض میں شامل ہو چکا ہے۔

اتنا کچھ جان لینے کے باوجود بھی آپ کو اپنا چشمہ بدل لینے کا کسی بھی قسم کا کوئی پروگرام دکھائی دیتا نظر نہیں آرہا اور آپ کے بیان اور خدشات کے مطابق آپ نے تمام تر قصوروار اپنے سے پچھلی حکومتوں کو قرار دینے کا روایتی انداز بالکل اسی طرح اپنا رکھاہے، جس طرح آپ سے پہلے والے سارے حکمران اپنا تے رہے ہیں۔ آپ کا یہ فرمانا کہ “کھانے پینے کی جو چیزیں مہنگی ہوئی ہیں، چینی اور آٹا جو مہنگا ہوا ہے اس میں ہماری کوتاہی ہے۔ اس پر پوری تحقیق ہو رہی ہے۔ جانتے ہیں کس نے مہنگائی کر کے فائدہ اٹھایا ہے؟ سب پتا چل گیا ہے۔ مہنگائی کر کے پیسہ بنانے والوں کو چھوڑیں گے نہیں۔ سسٹم ایسا بنائیں گے جس سے پتا چل سکے کس چیز کی کس وقت ضرورت ہے”، اپنی ناکامی کے اعتراف کے ساتھ ساتھ یہ تاثر دیتا ہوا نظر آتا ہے کہ ہم اپنی تمام تر کوتاہی کے باوجود مہنگائی پر کنٹرول پانے کی بجائے مہنگائی کے جال میں مزید الجھتے جائیں گے۔
جب کسی حکمران کو یہ خبر بھی ہو کہ مہنگائی کے اصل ذمہ دار کون لوگ یا ادارے ہیں؟ اس کے باوجود بھی ان کا نام نہ لینا یا ان پر ہاتھ ڈالنے سے گریز کرنا اس بات کی علامت ہے کہ آپ اصل ذمہ داروں کو جان لینے کے باوجود بھی ان پر ہاتھ ڈالتے ہوئے نہ صرف کسی مصلحت کا شکار ہیں ،بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ جن کی جانب آپ کا شک جارہا ہے، وہ خود آپ کی حکومت کے ایسے ستون ہوں، جن پر آپ کے اقتدار کی عمارت کھڑی ہوئی ہو۔ اس کا عملی مظاہر جو اب تک سامنے آیا ہے وہ بھی اسی بات کا غماز ہے کہ آپ کی حکومت نے اب تک جس جس کے خلاف کارروائی کی ہے وہ آپ کی اپوزیشن کے افراد ہیں۔

آپ کا یہ کہنا بجا کہ جو بھی مہنگائی کا ذمے دار ہے، اسے آپ کسی صورت نہیں بخشیں گے، بجا ہے اور بے شک ایسا ہی ہونا بھی چاہیے، لیکن اب تک کے تجربات آپ کے ہر دعوے کے برعکس ہی ثابت ہوئے ہیں۔ ہر وہ فرد جس کو آپ نے ملک کی دولت لوٹنے کے جرم میں انجام تک پہنچانے کا دعویٰ کیا تھا وہ سب کے سب ضمانتوں پر کچھ ملک میں اور کچھ ملک سے باہر عیش و آرام کی زندگی گزرتے نظر آ رہے ہیں۔ آپ کے ایسے ہی دعوؤں کو سامنے رکھ کر قوم اب کس طرح اس بات کو سچ مان لے کہ آپ مہنگائی کے اصل ذمہ داروں کو نشانِ عبرت بنا کر ہی دم لیں گے۔

قوم آپ کو اب تک کتنا پسند کرتی ہے؟ اس بات کا اندازہ آپ اور آپ کی حکومت اس بات سے بخوبی لگا سکتی ہے کہ ہوشربا مہنگائی، ہر قسم کی وعدہ خلافیوں، ہر عزم کو بیچ چوراہے پر توڑ دینے، ہر قومی مجرم کو چھوڑ دینے اور تمام تر بد انتظامیوں کے باوجود لوگ بہر حال آپ کے خلاف سڑکوں پر آنے کیلئے تیار نہیں ہو رہے ہیں اور اس بات کی ابھی تک امیدیں باندھے ہوئے ہیں کہ منجھدھار میں پھنسی معیشت کی ناؤ کو آپ کنارے لگانے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔ اپوزیشن اس بات کی کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان عوام کی پریشانی کا بھرپور فائدہ اٹھائیں لیکن وہ اب تک عوام کے صبر و ضبط کے پیمانے کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ لہٰذا آپ وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اس ملک کو لوٹنے، نوچنے اور برباد کرنے والوں کے خلاف کسی بھی لحاظ و تمیز کے بغیر بے رحمانہ کارروائی کر گزریں، تاکہ پاکستان کے وہ عوام جو اپنی آس آپ کی جانب سے کسی صورت توڑنے کیلئے تیار نہیں، سکھ چین کا سانس لے سکیں اور پاکستان کو آپ کے وژن کے مطابق ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے میں بھر پور حصہ لے سکیں۔

یہ بات آپ کے ذہن میں بہر صورت رہنا ضروری ہے کہ آپ کے پاس اب صرف 42 ماہ رہ گئے ہیں۔ وقت کم رہ گیا ہے اور مقابلہ اس مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جہاں جیت کیلئے صرف اور صرف مخالفین کو “ناک آؤٹ” کرنے کے علاوہ اور کوئی بھی آپشن موجود نہیں۔ پوائنٹ کی بنیاد پر اب اس مقابلے کو جیتنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں اس لئے اپنے عزم و ہمت کو تازہ کریں اور مخالفین پر اتنی بھر پور ضرب لگائیں کہ انھیں رنگ میں اٹھنے اور سانسیں بحال رکھنے تک کا موقع نہ مل سکے۔

جواب چھوڑ دیں