سخت سزا سے تبدیلی ممکن ہے

پاکستان دنیا کے نقشے پہ ابھرا تو مسائل کا پہاڑ نوزائیدہ ریاست کے سامنے کھڑا تھا، پے در پے حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں لیکن مثائل حل نہ ہوئے۔ ہر طرف بدانتظامی، لاقانونیت، بدعنوانی، رشوت ستانی، خودغرضی و مفاد پرستی بے لگام پھر رہی ہے، بہت سی حکومتیں آئیں اور آکر چلی گئیں لیکن مسائل و بدانتظامی کے معاملات کا جنگل جوں کا توں اپنی جگہ قائم ہے ،بلکہ اس جنگل کے درخت کی شاخیں مزید بڑھتی ہی گئیں جن کے منحوس سائے نے عوام کی مایوسیوں، بے بسی اور بیچارگی میں روز افزوں اضافہ در اضافہ ہی کیا۔
پچھلی تمام حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی مسائل حل کرنے، خستہ حال نظام کو لپیٹنے اور عوام کو سکھ کا سانس مہیا کرنے کے دعوے کیے جو ابتک تو محض دعوے ہی ثابت ہوئے، بدانتظامی و بدعنوانی کا یہ عالم ہے کہ دوہرا تہرا معیار قانون معاشرے کا سب سے اہم جُز بن چکا ہے۔ نتیجتاً اخلاص و ایثار، ہمدردی و اپنائیت کا گراف انتہائی پستی کا شکار ہے، خودغرضی، مفاد پرستی و دشنام طرازی کا بازار گرم ہے، زمینی خداؤں کا بول بالا ہے جس پہ ہاتھ رکھو وہ کسی نہ کسی زمینی خدا کا بندہ نکلتا ہے، کوئی فلاں وڈیرے کا بندہ ہے تو کسی پہ طاقتور بیوروکریٹ کا ہاتھ ہے، کسی کی سرپرستی کوئی سرمایہ دار کررہا ہے تو کوئی کسی سردار کی بندگی میں خوش ہے۔
الغرض کہ سب کسی نہ کسی زمینی خدا کے بندے ہیں حقیقی خدا کے بندے ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے اور جو خدا کے بندے ہیں تو ان کا حال یہ ہے کہ روز مرتے ہیں روز جیتے ہیں، معاشرے میں ہر طرف زہر پھیلا ہے خدا کا بندہ زہریلی فضا میں کیسے سانس لے؟ تقریباً ہر بیوروکریٹ، جج، جرنیل اور حکومت نے کہا کہ وہ عوام کو اس بیچارگی کے عالم سے چھٹکارہ دلائیں گے جہاں بہت سے خداؤں کی پرستش لازم ہوکر رہ گئی ہے لیکن کوئی ایک وعدہ وفا نہ ہوا، موجودہ حکومت کے نیا پاکستان اور تبدیلی کے دعوے بھی محض دعوے ہی ثابت ہوے، کپتان کی مخلصی اور نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کپتان صاحب کی نیک نیتی و مخلصی کے باوجود بدانتظامی، اقربا پروری، بدعنوانی، لاقانونیت میں کمی کی بجائے اضافہ کیوں ہوا ؟
اس کا جواب کوئی بہت زیادہ پیچیدہ نہیں بلکہ ایک کھلا راز ہے کہ روایت کے مطابق کپتان صاحب کی مخلصی و نیت صرف لفظوں تک ہی محدود ہے عملی طور پر اس کا وجود دور دور تک نظر نہیں آتا، ایسے میں پاکستان اور عوام انہی بدعنوان پاسبانوں کے ہاتھ میں ہی رہیگا جن کی مرضی و منشا سے ہمیشہ چلتا آرہا ہے، سیرت نبویؐ کا یہ واقعہ ششم جماعت کے نصاب کا حصہ ہے کہ ایک قبیلہ بنی مخزوم کی عورت چوری کے الزام میں پکڑی گئی جسے ہاتھ کاٹنے کی سزا دی گئی تو اہلیان قریش نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کو آمادہ کرکے اس عورت کو معاف کرنے کے لیے سفارش پیش کی تو حضور پاکؐ پر جلال کی کیفیت کے آثار نمودار ہوگئے اور غضبناک لہجہ میں فرمایا تم سے پہلے کی قومیں اس لیے تباہ ہوگئیں کہ جب کوئی امیر جرم کرتا تو چھوڑ دیا جاتا اور غریب پکڑا جاتا تو اسے سزا دی جاتی، خدا کی قسم! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالتا۔
اس واقعہ نبویؐ کے تحت اگر مجرم کو بلاتفریق سزا دی جانے لگے تو لوگ جرم کرنے کے تصور سے بھی ڈریں لیکن پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں ملّت کے پاسبان ہی مجرموں بلکہ جرائم کی سرپرستی کرتے ہیں، اس بات پہ مصرع ذہن میں آرہا ہے کہ یہ وطن ہمارا ہے ہم ہیں پاسباں اس کے، یہ وہ مصرع ہے جو پاکستان کی موروثی اشرافیہ پہ صادق آتا ہے جو نسل در نسل ملک و ملّت کی پاسبانی کا بیڑہ اٹھائے ملک و قوم کا بیڑہ غرق کرتے آرہے ہیں، جو MNA, MPA ہیں انہی کی اولاد MNA, MPA بنتی آرہی ہے جو بیوروکریٹس ہیں انہی کی اولاد میں آگے چل کر یہ عہدے منتقل ہوجاتے ہیں، عوام بیچاری مجبور ہے کہ ان زمینی خداؤں کی پرستش کرے ورنہ ان سے باعزّت جینے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔
کپتان صاحب کی نیت اچھی ہے لیکن اس کا کیا فائدہ جب عمل نہ ہو، کپتان صاحب کو بھی وہی پرانے ٹوپی ڈراموں کی نذر کردیا گیا ہے احساس پروگرام، ہیلتھ کارڈ، بلین ٹری سونامی وغیرہ وغیرہ لیکن عوام کا اصل مسئلہ ہنوز روز اول است کے مصداق اپنی جگہ قائم ہے، کل بینظیر انکم سپورٹ پروگرام تھا آج اس کے غلط استعمال کے حیران کن انکشافات سامنے آرہے ہیں، آنے والے وقت میں احساس کفالت و دیگر منصوبوں کے غلط استعمال کے انکشافات سامنے آئینگے وجہ عمران خان یا زرداری یا نوازشریف نہیں، درحقیقت مسئلہ صرف ایک ہے کہ ایک طرف میرٹ کی قدر نہیں کی جاتی دوسری طرف مجرم پر جرم ثابت ہونے کے باوجود میڈیا کی حد تک ڈگڈگی ضرور بجائی جاتی ہے جبکہ سزا نہیں دی جاتی ۔
پاکستان کے نمبر ون ریاضی دان و ماہر طبیعیات عامرا قبال جس کی قابلیت کی معترف بیرونی دنیا بھی ہے لیکن افسوس ہائے افسوس پاکستان میں اسے رسوا کیا گیا، مجبوراً دلبرداشتہ ہوکر ملک چھوڑ گئے جہاں پندرہ دن میں دنیا کی نمبر ون ہاورڈ یونیورسٹی نے جاب آفر کردی اور تُف ہے ہمارے نظام پر جہاں سالوں تک ایسے قابل شخص کو کنٹیکٹ کی تلوار کے نیچے لٹکائے رکھا، مستقل نہ کیا گیا کیونکہ وہ کسی زمینی خدا کا بندہ نہیں تھا، تُف ہے ہمارے نظام پر جہاں اتنے بڑے نقصان پر کسی کو افسوس تک نہ ہوا، ہزار تُف ہماری سوچ پر کہ میڈیا میں بلاول کو چھینک آجائے تو ہفتہ ہفتہ پروگرام، کپتان نے یہ کہ دیا تو مہینوں پروگرام، میاں صاحب کی طبیعت خراب تو سالہا سال پروگرام ہوتے رہتے ہیں لیکن عامرا قبال اسکینڈل کو اس قابل ہی نہ سمجھا گیا کہ اینکر حضرات اس پر پروگرام کرتے، دراصل قصور اینکرز کا بھی نہیں وہ بھی تھک گئے ثبوتوں کے ساتھ پروگرام کر کرکے لیکن کسی ایک کو بھی سزا تو دور پوچھا تک نہیں گیا، کیونکہ ملّت کے سارے پاسبان چاہتے ہی یہی ہیں کہ ان کی گوٹ چلتی رہے۔
ایک نوجوان ذوالفقار خاصخیلی مہران یونیورسٹی سے ME کرکے خوش قسمتی سے NTS امتحان پاس کرکے میرٹ پر MEPCO میں SDO مقرر ہوگئے، خان بیلہ میں تعیناتی کیساتھ عزم کیا کہ ایمانداری سے ڈیوٹی دونگا، بہت سے بجلی چوروں کو پکڑا، غریب صارفین کو اوور بلنگ نہ کی، وہاں کے MPA جناب علی نواز چانڈیو SDO صاحب کی ایماندارانہ روش سے سخت نالاں تھے، ذوالفقار خاصخیلی صاحب کو متعدد بار دھمکایا گیا پریشرائز کیا گیا لیکن خاصخیلی صاحب نے حکمران جماعت PTI کے MPA علی نواز چانڈیو کی خدائیت تسلیم کرنے سے انکار کردیا تو اعلیٰ افسران نے MPA صاحب کے کہنے پر خاصخیلی صاحب کا ریکارڈ ہی خراب کردیا کہ وہ عوام کو ہراساں کرتے ہیں، غریب صارفین کو اوور بلنگ نہ کی تو لاسز بڑھ گئے لہٰذا ایمانداری یہاں بھی ہار گئی اور جب مستقلی کے لیے کچھ دن پہلے SDO صاحب کمیٹی کے روبرو پیش ہوئے تو اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا، کے مصداق کمیٹی نے یہ کہہ کر کہ آپکا تو ریکارڈ ہی خراب ہے انٹرویو کیے بغیر واپس لوٹا دیا۔
یہ ہے ایمانداری کا صلہ جبکہ ایک ہادی بخش کلہوڑو ہیں موصوف سندھ پبلک سروس کمیشن میں کنٹرولر ایگزامینیشن کے عہدے پہ تعینات کیے گئے تو اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے کلہوڑو صاحب نے تیس رشتہ داروں و اپنے خاندان کے افراد کو میرٹ کی دھجیاں اڑا کر بھرتی کرلیا، میڈیا میں شور مچا لیکن معمول کے مطابق کوئی خاص ایکشن نہ لیا گیا جیسی حکومتیں ویسی ہی کورٹ ہیں فلمی ڈائیلاگ ایک سے بڑھ کر ایک لیکن عمل ٹکے کا نہیں، کپتان صاحب کے لیے اس سے بڑھ کر کیا موقع ہوگا کہ ملک کے اہم صوبے سندھ کے اہم ترین ادارے کی ساکھ خراب کرنے اور اختیارات کے غلط استعمال و بدعنوانی کے مرتکب کنٹرولر صاحب کو نوکری سے برطرف کرتے ہوے جائیداد کی ضبطی کیساتھ کم از کم سزا عمر قید دی جائے اور موصوف کے تمام رشتہ داروں کو بھی فارغ کردیں تو کون ہے جو آئندہ اختیارات کے غلط استعمال کی جسارت کرے۔
لیکن شاید یہ خواب دیوانے کا خواب ہی ثابت ہوگا، کیونکہ پاکستان میں امیروں کو سزا ہونے کے دور دور تک آثار نظر نہیں آتے اور میرٹ ہمیشہ دربدر ہوتا رہیگا کہیں IBA ہیڈماسٹرز کی صورت تو کہیں عامراقبال اور کبھی ذوالفقار خاصخیلی کی شکل میں جبکہ زمینی خدا اپنا سکّہ چلاتے رہینگے کیونکہ پوری دنیا میں ان کی زبردستی کی پاسبانی پہ کسی کو اعتراز نہیں، کپتان اگر واقعی تبدیلی چاہتے ہیں تو روایتی ڈرامے بازیوں میں الجھنے کی بجائے ان واقعات پر نوٹس لیں جن پر عوام کی چیخ و پکار ہو اور ملوث افراد کو دنوں میں سخت ترین سزا دلوائیں تاکہ میرٹ و قنون کی بحالی ہو اور لوگ زمینی خدا بننے سے باز آجائیں۔

جواب چھوڑ دیں