چین اور پاکستان میں فرق

پچھلی دہائیوں میں چائنہ نے عالمی تجارتی منڈی کو مکمل طور پر کیپ چر کرلیا، امریکا اور یورپ کی مارکیٹوں میں چین کی طوطی بولنے لگی اور یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوگیا بلکہ اس کے لئے چائنیز عوام اور چائنیز حکومت نے ملکر کوششیں کیں اور بڑی محنت سے عالمی منڈیوں میں میں اپنی ساکھ کو برقرار رکھا۔ یہاں تک کہ یورپ اور امریکہ کے تھنک ٹینک یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اس معاشی سیلاب کو کس طرح روکا جائے؟

آنے والے وقت میں چین سپر پاور کے طور پر نظر آنے لگا امریکہ کو اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے لیے بہت کچھ سوچنا پڑا اور یہی پچھلی دو مہینے پہلے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ امریکہ نے چائنیز گڈز کو اپنے ملک میں امپورٹ کرنے پر 15 سے بیس پرسنٹ ڈیوٹی بڑھا دی لیکن چائینیز گورنمنٹ نے اس کا بھی توڑ نکال لیا اور انہوں نے نے اپنی تاجر برادری کو اس بات کی یاد دہانی کروادی کہ اپنا مال عالمی تجارتی منڈیوں میں کھلے دل سے بھیجیں، ایکسٹرا ڈیوٹی جو امریکہ نے عائد کی ہے، اس کی ادائیگی چین کی حکومت اپنے سر لیتی ہے۔

موجودہ حالات ہمیں یہ بتاتے ہیں ہیں کہ چین کرونا وائرس پر قابو پانے کے لیے بے انتہا کوششیں کر رہا ہے۔ تمام ممالک نے نے اسے اپنی سرحدیں بند کرلی ہیں چائنیز شہریوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ امپورٹ ایکسپورٹ بری طرح سے متاثر بلکہ بند ہوچکا ہے، لیکن اس کے باوجود آنے والی خبریں یہ بتا رہی ہیں کہ چین کی حکومت اور عوام مل کر اس مشکل گھڑی میں ساتھ کھڑے ہیں، اور وہ حالات کا مقابلہ کرنے کےلیےتیار ہے ہیں۔ نئےہاسپٹل بنائے جارہے ہیں۔ ایمرجنسی میں 20 لاکھ کے قریب ماسک تیار کیے گئے ہیں۔ چین کی حکومت نے اپنی عوام سے اس بات کا وعدہ لیا ہے اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم کیا ہے ، کہ کوئی ذخیرہ اندوزی نہ کرنے پائے۔پینک نہ پھیلائیں، حکومت سو نہیں رہی بلکہ جاگ رہی ہے۔ روزمرہ کی چیزیں ملیں گی اور روزانہ کی بنیاد پر ملیں گی۔ ذخیرہ اندوزی سے پرہیز کریں۔

یہ سب باتیں لکھنے کا مقصد یہ نہیں کہ پاکستانی عوام چین کے حالات سے بے خبر ہیں، بلکہ اس میں میرے اور آپ کے لیے بہت بڑا پیغام ہے، ہمارے ملک میں کرفیو لگ جائے یا ہڑتال ہوجائے ،آٹےکا بحران ہویا چینی کا ۔ ۔ ۔ ۔ قلت پیدا کرنے اور ملک کو مزید دشواریوں میں ڈالنے میں ہم بحیثیت قوم اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جہاں ہمیں ایک کلو کی ضرورت ہوتی ہے، تو ہم دو کلو خریدتے ہیں بلکہ پانچ کلو تک خرید لیتے ہیں۔ غیر مسلم ہونے کے باوجود ان کے طرز عمل کیا ہیں؟ اور بحیثیت مسلمان میرے اور آپ کے اعمال کیا ہیں۔اور اس حوالے سے میں عوام کو نہیں بلکہ پورے سسٹم کو ذمہ دار سمجھتی ہوں۔

اللہ کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی رشوت، چوربازاری اور ذخیرہ اندوزی کے مقابلے میں اگر کوئی قوم سچ اور حق کا راستہ اختیار کرتی ہے، حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے ان کے جذبے بلند ہیں ، تو کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صرف غیر مسلم ہونے کی وجہ سے اللہ کے عذاب کے مستحق ہو جائیں گے۔ اور ہم صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے ان برائیوں کو اختیار کرنےکا حق رکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی یہ بہت ساری اچھی عادتیں اور خوبیاں انہیں اللہ کی طرف راغب کرنے میں اہم کردار ادا کر لیں اور ہم اس زعم میں مبتلا رہیں کہ ان ساری برائیوں کے باوجود ہم ہیں تو مسلمان۔

جواب چھوڑ دیں