انسان نما درندوں کاواحدعلاج…”سرعام پھانسی “

جگہ وہی جلتی ہے جہاں آگ لگی ہو۔دردسے وہی تڑپتے اورکراہتے ہیں جن کوزخم لگے ہوتے ہیں۔گرگٹ کی طرح رنگ ،پارٹیاںاورمزاج بدلنے والوں کوکیاپتہ کہ دکھ،درداورزخم کیاہوتے ہیں۔۔؟معصوم بچوں اوربچیوں کواپنی ہوس کانشانہ بنانے والے انسانی درندوں کو،،سرعام پھانسی،،دینایہ ظلم ہے یاانصاف۔۔؟اس بارے میں کسی نواب، رئیس ،وڈیرے اورکسی چودھری سے فتویٰ لینے کی بجائے ان بدقسمت ماں باپ کے دل چیرکرانہیں ایک لمحے کے لئے اندرسے دیکھناچاہیئے۔

غم ورنج اوردردوتکلیف کے مارے غریبوں کے اداس چہروں پرغم والم کی ہزاروںلاکھوں لکیریں توان نوابوں،خانوں،چودھریوں،رئیسوں اوروڈیروںکونظرنہیں آرہیں لیکن شائدکہ کسی غریب کے چیرے ہوئے دل پرغم والم ،دردوتکلیف کے جمنے والے خون کے کسی لوتھڑے پرپھر ان میں سے کسی کی نظرپڑہی جائے۔

ایک طویل عرصے سے کلمہ طیبہ کے نام پربننے والے اس ملک میں انسانی درندے اوربھیڑیئے اپنے بلوں سے نکل کرغریبوںکے معصوم اورپھول جیسے بچے وبچیوں کاگوشت نوچ نوچ کرانہیں موت کی نیندسلارہے ہیں مگرہمارے حکمرانوں میں سے کسی کواس کی کوئی پرواہ نہیں ۔کسی معصوم بچے کی طرف پنجہ اٹھاتے اوربڑھاتے ہوئے جنگلی درندے بھی ہزاربارسوچتے ہوں گے مگرافسوس یہ انسانی درندے سوچناکیا۔۔؟یہ بدبخت توخدااورآخرت کے انجام سے بھی ذرہ نہیں ڈرتے۔انسانیت کالبادہ اوڑھے ہوئے ان انسان نمادرندوں نے وحشی جانوروں کوبھی شرمادیاہے۔ان ظالموں کے ہاتھوں آج یہ ملک بچوں کاایک قبرستان بناہواہے جہاں کوئی زینب محفوظ ہے اورنہ ہی کوئی فرشتہ۔

ان درندوں کی وجہ سے درجنوں نہیں سینکڑوں اورہزاروں بدقسمت مائیں اپنی پھول جیسی بچیوں اوربچوں کی تشددزدہ اورخون آلودنعشیںاٹھائے ان معصوم بچوں کے غم میں ہمیشہ کے لئے پاگل ہوچکی ہیں۔ان بچوں کی یادمیں آنسوبہاتے بہاتے آنکھیں بھی مکمل خشک اورضبط وصبرکی تمام زنجیریں بھی اب ٹوٹ چکی ہیں۔جس گھرسے لومڑی اورگیڈرکوئی مرغی اٹھائے۔ایک مرغی کی یادمیں وہاں کے مکینوں کی بھی راتوں کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں پھرجس آنگن سے مرغی نہیں کسی زینب اورفرشتے کودن دیہاڑے کوئی انسانی لومڑی یاگیدڑراٹھاکرلے جائے وہاں کے مکینوں پرپھرکیاگزرتی ہوگی۔۔؟

بچے توسب کے سانجھے ہوتے ہیں ۔اس ملک کی گلیوں اورمحلوں سے جوانسانی لومڑیاں اورگیدڑ زینب،اقراء،صائمہ،کلثوم اورحاجرہ سمیت جوسینکڑوں اورہزاروں پھول جیسے فرشتوں کواٹھاکرلے گئے ہیں ان کی بدقسمت مائیں اب کیسے جی رہی ہوں گی۔۔؟ان انسانی درندوں کی درندگی اورہوس کی بھینٹ چڑھنے والی ان معصوم کلیوں کے نام بھی سن کردل پھٹنے لگتاہے پھران ماں باپ جنہوں نے ان پھولوں کواپنے ہاتھوں میں پوساپالا۔جن کے کل کے لئے انہوں نے اپناآج قربان کیا۔جن کی ایک ایک آہ پروہ رات بھرآہ آہ کرتے رہے۔وہ بدقسمت والدین اپنے ان معصوم اورپھول جیسے بچوں کوکیسے بھول پائیں گے۔۔؟جن کے بچے وی آئی پی پروٹوکول میں پل رہے ہوں ان کوایسے وحشی درندوں کی سزااورانجام سے کیاغرض۔۔؟ایسے درندوں کی سرعام پھانسی کے بارے میں توان غریبوں سے پوچھاجائے جن کے معصوم اورپھول جیسے بچے آج بھی ان درندوں کے نشانے پرہیں۔

ہمارے باباجی کہتے تھے کہ پترکھیت،چمن اورباغ کوبچانے کے لئے ایک نہ ایک لومڑی اورگیڈرکوالٹالٹکاناپڑتاہے۔ ورنہ اس کے بغیرکوئی باغ،کھیت اورچمن پھرتباہی سے نہیں بچ سکے گا۔ سرعام پھانسی یہ کوئی بلانہیں بلکہ یہ ملک،قوم اورمعاشرے کواس طرح کے درندوں اورسوروں سے بچانے کے لئے مجرب دواء ضرور ہے ۔ہم جس دین کے نام لیواہیں ۔اس دین کی تعلیمات بھی یہی ہیں کہ مجرم جتنابڑااورجرم جتنابھاری ہوسزابھی پھراتنی ہی سخت دی جائے۔ چوری پرچورکے ہاتھ کاٹنے اورزناپرکوڑے مارنے اورسنگسارکرنے کی سزائیں صرف اس لیے مقررکی گئی ہیں کہ مجرم کونہ صرف دنیامیںاس کے کئے کی سزاملے بلکہ دیگرلوگ اس سے عبرت بھی حاصل کریں۔

سعودی عرب میں سرعام پھانسی کاقانون ہے اس لیے وہاں لوگ قتل وغارت تودور کوئی بھی غلط قدم اٹھانے سے پہلے ہزاربارسوچتے ہیں۔اس ملک میں اگرکسی ایک چورکے ہاتھ کاٹے جاتے توکیایہ ملک پھر آج اس طرح چوروں سے بھراہوتا۔۔؟یہاں اگرکسی ایک زانی اورشرابی کوکوڑے پڑتے یاانہیں سنگسارکیاجاتاتوکیااس ملک میں حواکی بیٹیوں کی عزتیں اورعصمتیں پھراس طرح نیلام اور تار تار ہوتیں۔۔؟کسی معصوم بچی اوربچے کوہوس کانشانہ بنانے والاکوئی ایک درندہ بھی اگراس ملک میں کسی چوک اورچوراہے پرالٹالٹک جاتاتونہ ہمیں قصورکی زینب کی خون آلوداورتشددزدہ نعش دیکھنے کی نوبت آتی اورنہ ہی اسلام آبادکے فرشتے کی ہڈیاں گننے کاکوئی موقع ملتا۔

مرض بڑھتاگیاجوں جوں دواء کی۔مگرافسوس یہاں توہم نے دعائیں بہت کیں مگردواء کے بارے میں ہم نے کبھی سوچابھی نہیں۔زینب،اقراء،صائمہ،کلثوم ،حاجرہ اورفرشتے جیسی معصوم کلیوں کی نعشوں کوسامنے رکھ کرآہیں توہم نے بہت بھریں۔آنسوبھی ہم نے بہت بہائے۔سینہ کوبی اورآہ وزاری بھی ہم نے بہت کی لیکن درندوں کے آگے حصاراوردیوارہم نے کوئی نہیں بنائی۔درندوں کی سرعام پھانسی یہ وہ حصاراوردیوارہے جس کے ذریعے ہم اس چمن اورباغ کوان درندوں سے بچاسکتے ہیں ۔

ملک بھرمیں معصوم بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے حالیہ واقعات کودیکھ کرنہیں لگ رہاکہ اب اس ملک میں کوئی بچہ یاکوئی بچی ان درندوں سے محفوظ ہو۔اس وقت اس بحث میں پڑناکہ درندوں کوسرعام پھانسی دینا جائزاورقانونی ہے یانہیں ۔ہمیں اپنے اوراس قوم کے بچوں کے روشن مستقبل کے لئے سرعام پھانسی کے سلسلے کوشروع کرنے کی فوری حمایت کرنی چاہیئے۔ہم اگرجائزوناجائزاورقانونی نکات کودیکھتے رہیں توکل کوپھران درندوں سے اس ملک کاکوئی بھی بچہ محفوظ نہیں رہے گا۔کہتے ہیں بڑی آفت کے مقابلے میں چھوٹی برائی کوگلے لگاناچاہیئے ۔

ہمارے خیال میں سرعام پھانسی کاعمل اول توہرگزناجائزنہیں ہوگاپھربھی اگریہ اقدام ناجائزاورغیرقانونی ہے بھی تب بھی ہمیں درندوں کی بڑی آفت،مصیبت اوربلاسے چھٹکارے کے لیے اس کوفوری طورپرقانون کادرجہ دے کراپناناچاہیئے تاکہ ان بے لگام درندوں اورانسانی بھیڑیوں سے اس گلشن اورچمن کوبچایاجاسکے۔حکمران اورمنتخب نمائندے قوم کے محافظ ہوتے ہیں ۔قوم اورقوم کے معصوم بچوں کوانسانی درندوں اوربھیڑیوں سے بچاناہمارے ان حکمرانوں اورمنتخب ممبران پرفرض ہے۔

عوام سے متعلق ایسے مسائل اورایشوپرسیاست چمکانے والے حکمرانوں ،سیاستدانوں اورمنتخب ممبران کوچلوبھرپانی میں ڈوب کرشرم سے مرناچاہیئے۔جولوگ غریب عوام سے ووٹ لیتے ہیں انہیں پھرقوم کے معصوم بچوں کے سروں اورزندگیوں پرسیاست کرنازیب نہیں دیتا۔جولوگ ملک وقوم کے اس اہم مسئلے کوبھی سیاست کی نظرسے دیکھتے ہیں ان لوگوں کواپنے بچوں کوبھی ایک لمحے کے لئے سامنے رکھناچاہیئے۔آج اگرغریبوں کے یہ پھول درندوں کے ناپاک پائوں تلے روندے اورمسلے جارہے ہیں توکل کویہی پھول سرعام پھانسی کی مخالفت کرنے والے ان سنگدل اورمفادپرست سیاستدانوں اورقوم کے نام نہاددانشوروںکے بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لیے درندوں کی سرعام پھانسی کے اقدام کوایک نظرسے دیکھنے کی بجائے ہمیں اپنی دونوں آنکھیں کھول کرماضی ،حال اورمستقبل کودیکھناچاہیئے۔

ہم آج بھی کہتے ہیں کہ سال دو سال پہلے بھی اگر کسی درندے کوسرعام پھانسی دے کرکسی چوک اورچوراہے پرالٹالٹکادیاجاتاتونوبت قصورسے اسلام آباد،پشاوراورمردان تک کبھی نہ پہنچتی۔ اب بھی وقت ہے کہ کسی ایک درندے کوملک کے کسی چوک اورچوراہے پرالٹالٹکاکراسے دوسرے درندوں اورانسانی بھیڑیوں کے لیے نشان عبرت بنایاجائے ورنہ کل کوپھرہم چاہتے ہوئے بھی اپنے معصوم اورپھول جیسے بچوں کوان درندوں سے نہیں بچاسکیں گے۔اس لیے سرعام پھانسی ہی ان درندوں کاواحدعلاج ہے اوریہ علاج کل نہیں آج ہی ہوناچاہیئے تاکہ ہمارے بچے ان درندوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ رہ سکیں ۔

جواب چھوڑ دیں