کشمیر جنت نہیں جیل ہے

فروری کے شروع ایام گزر رہے ہیں، ان ایام میں فیصل آباد شہر چوک گھنٹہ گھر کے پاس سے کسی کام کی غرض سے گزر ہوا، تو جاتے ہوئے راستے میں دیکھا کہ ہر طرف تقریبا ہر بازار میں 5فروری(یوم یکجہتی کشمیر) کی مناسبت سے اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے بڑے بڑے بینرز، فلیکس آویزاں کیے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔تو اسی حوالے سے میرے ذہن میں اپنے کشمیری بھائیوں کے بارے میں سوچ و بچار شروع ہو گئی۔میرے دل کو وہ منظر اور بینرز پر لکھے ہوئے جملے بہت ہی خوبصورت لگے کہ ہمارے پاکستانی عوام اپنے کشمیری بھائیوں سے بے حد محبت کرتے ہیں، ان کے دکھ درد کو اپنا ہی محسوس کرتے ہیں اور پھر وہاں پر بھارت سرکار کے غاصبانہ قبضے کے خلاف وقتاً فوقتاً احتجاج کرتے ہوئے پوری دنیا کے حکمرانوں، امن و امان اور انسانیت کو ان کے حقوق دلوانے کے دعوے داروں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑتے رہتے ہیں۔ بھارت سرکار کے اس شرمناک اور گھٹیا ترین رویے کی وجہ سے اگر سرزمین مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل کا نام بھی دے دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

حکومت پاکستان اپنے قائد بانی پاکستان محمد علی جناح رحمہ اللہ کے قول پر عمل پیرا ہے،جو قائد رحمہ اللہ نے کہا تھا ’’کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے‘‘ تو اس شہہ رگ (کشمیر) کو آزادی کی نعمت سے سرفراز کرنے کے لیے ہماری پوری قوم اخلاقی، مذہبی، سیاسی اور سفارتی سطح پر ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ اسی طرح ہم پاکستانی عوام نے بانی پاکستان کے فرمان کو اتنی اہمیت دے رکھی ہے کہ وطن عزیز میں کشمیر کی آزادی کے لیے بہت زیادہ تحریکیں اپنے اپنے انداز میں کام کر رہی ہیں۔اس بات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ چاہے یوم یکجہتی کشمیر ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور دن ہو وطن عزیز کے باشندے اپنے کشمیری بھائیوں کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑتے اور نہ ہی چھوڑیں گے(ان شاء اللہ)۔

اس بات میں بھی کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے کہ کئی دہائیوں سے کشمیری نوجوان، بچے، بوڑھے، مائیں اور بہنیں اپنے حق کو منوانے یعنی عظیم نعمت’’آزادی‘‘ کو حاصل کرنے اور اپنے مستقبل کو وطن عزیز پاکستان سے وابستہ کرنے کے لیے بھارت سرکار کے خلاف سینہ سپر ہیں ، وہ اپنے اس حق(آزادی) کو منوانے کے لیے بے شمار قربانیاں دے چکے ہیں اور دے رہے ہیں اور وہ اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کر رہے۔

شاعر اپنے انداز میں کچھ یوں ترجمانی کرتا ہے:

رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو

کہ یہی سرخی ہے آزادی کے افسانے کی یہ شفق رنگ لہو

جس کے ہر قطرے میں خورشید کئی

جس کی ہر بوند میں اک صبح نئی

دور جس صبح درخشاں سے اندھیرا ہو گا

رات کٹ جائے گی گل رنگ سویرا ہو گا

خون میں ڈوبی ہوئی سب رہگزاروں کو سلام

چرخ آزادی کے رخشندہ ستاروں کو سلام

سرفروشوں،غازیوں کو شہر یاروں کو سلام

اب جو مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی برپا ہے وہ دن بدن عروج پر جارہی ہے اور مضبوط تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ ہر گلی کوچہ میں آزادی اور ملک پاکستان سے وابستگی کے نعرے لگ رہے ہیں، ان نعروں کی ضرورحقیقی تکمیل ہو گی جو کہ اہل کشمیر اور اہل پاکستان دونوں کی آواز ہے،’’ہم لے کے رہیں گے آزادی‘‘ ،’’ہے حق ہمارا آزادی‘‘ ، ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘۔ ان شاء اللہ العزیز۔

حصہ
mm
امیر حمزہ بن محمد سرور سانگلہ ہل ضلع ننکانہ کے رہائشی ہیں۔انہوں نے عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سانگلہ ہل کے نواحی گاؤں علی آباد چک نمبر112میں مستقل رہائش پذیر ہیں ۔ان دنوں فیصل آبادمیں ایک رفاہی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں، ان کے کالمز روز نامہ’’ امن ‘‘ روزنامہ’’ قوت‘‘روز نامہ’’ سماء‘‘ روزنامہ’’حریف‘‘ میں شایع ہوتے ہیں۔اپنے نام کی مناسبت سے ’’امیرقلم ‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں۔ ماہ نامہ’’ علم وآگہی ‘‘اوراسی طرح دیگردینی رسائل وجرائدمیں مختلف موضوعات پرمضامین سپردقلم کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے نیشنل لیول پرکئی ایک تحریری مقابلہ جات میں حصہ لیااورنمایاں پوزیشنیں حاصل کیں ۔شعبہ صحافت سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ای میل:hh220635@gmail.com

جواب چھوڑ دیں