جرائم کی اصل وجہ

ایک روزشام کے وقت سیر کر رہے تھے کہ ایک گاڑی آ کر رکی، جس میں سے تین آدمی برآمد ہوئے، انہوں نے سامنے والے گھر کے دروازے پر دستک دی اور ایس ایچ او صاحب باہر آئے ۔ کچھ دیر خوشامدی باتیں ہوئیں اور مٹھائی کاڈبہ خوش دلی سے  قبول کر لیا گیا  ۔ کچھ دیر بات چیت ہوئی اور ان کو اندر آنے کی دعوت دی گئی ۔ تینوں افراد اندر چلے گئے کچھ دیر بعد باہر آئے اور کافی سارے نوٹ نکال کر گننے لگے ۔ گنتی ختم ہوئی تو دوبارہ اندر چلے گئے ۔ اور کچھ دیر بعد ہنسی خوشی سب باہر آئے اور نامعلوم منزل کی جانب رواں دواں ہو گئے ! یہ منظر ہر کچھ عرصے بعد دہرایا جاتا،  لیکن پھر ایک دن بڑی خبر سننے کو ملی !   ایک گاڑی سے بھاری مقدار میں  اسلحہ بارود برآمد ہوا ہے، جس میں بارہ ہنڈ گرنیڈ جس میں دس روسی ساختہ اور دو لوکل بنے ہوئے تھے ۔تین خود کش جیکٹس   ، چوالیس کے قریب ڈیٹونیٹرز ، اور دو کلو آرڈی ایکس تھا ۔ اس کے علاوہ کچھ اسلحہ مزید بھی تھا ۔  ہمارے رونگٹے اس وقت کھڑے ہوئے جب ہمیں معلوم ہوا کہ یہ گاڑی تو  ہمارے کمرے کے عین نیچے تین ماہ تک کھڑی رہی ! اگر یہ تمام   مواد پھٹ جاتا تو ہم سمیت پوری لین میں رہنے والوں کے ٹکڑے بھی شائد نہ مل پاتے !

یہ کہانی اسی سسٹم  کی کہانی ہے، جس کا حرف حرف سچ ہے ۔ خبر ملنے کے بعد ہم نے سورسز کا استعمال کیا تو معلوم ہوا کہ گاڑی کچھ عرصہ قبل فیصل آباد میں داخل ہوئی اور  تھانہ غلام محمد آباد کے ایریا سے پکڑی گئی، جس میں موجود دو افراد کو گرفتار کیا گیا  ۔جن کی شناخت  ان کے شناختی کارڈ  پر موجود نام محمد  عثمان اور ظفر اقبال کے نام سے ہوئی ۔  ایس ایچ او صاحب معاملے کی سنگینی سے بالکل لا علم تھے اور انتہائی غفلت کا شکار بھی تھے ۔ ان افراد نے جب ایس ایچ او صاحب سے اپنی “پہنچ “ڈسکس کی تو ان کو لگا کہ بڑی مچھلی ہاتھ آگئی ہے ۔ انہوں نے “باعزت ” طور پر گرفتار کیا اور ان کو تھانے لے گئے ۔ کچھ دیر بعد ان کے فون پر گھنٹی بجی دوسری جانب مقامی جگہ کےایم پی اے صاحب تھے۔ انہوں نے ایس ایچ او صاحب کو حکم دیا کہ ان کے بندے ہیں، ان کو فوری آزاد کر دیا جائے ۔ ایس ایچ او صاحب نے وہی کہانی سنائی کہ دیکھیں  جی معاملہ بہت بڑا ہے، تو ان کو کہا گیاکہ یا تو بندے چھوڑ دیں یا انکوائری کے لئے تیار ہو جائیں ۔  ایک ڈرپوک ایس ایچ او  جو کہ رشوت اور عیاشی میں گم تھا، اس کے لئے یہ بہت بڑی دھمکی تھی، سو انہوں نے آئیں بائیں شائیں کی تو ان کو کہا گیا کہ ٹھیک ہے، آپ گاڑی رکھ لیں بندے چھوڑ دیں  ۔ ایم پی اے  کے کہنے   پر ان کو چھوڑ دیا گیا ۔ اور گاڑی ایس ایچ او صاحب گھر لے آئے  جو کہ ہمارے کمرے بلکل نیچے ان کے گیراج میں کھڑی رہی۔  میڈیاکے مطابق صرف ایک ہفتہ کھڑی رہی جبکہ ہم نے یہ گاڑی تقریبا تین بار دیکھی تھی ۔ معاملہ ٹھنڈا ہونے کے بعد ایس ایچ او صاحب نے اس گاڑی پر شغل فرمانے کاسوچا اور اپنے ایک سنتری کو بھیجا کہ جاؤ گاڑی  سروس  اسٹیشن لے جاؤ۔  وہ سنتری گاڑی لے کر سروس اسٹیشن پہنچا جہاں اس کو اوپر اٹھایا گیا تو نیچے لگے بارود نے سروس اسٹیشن والوں کی سیٹی گم کر دی ۔ سب بھاگ کر باہر نکل گئے، افراتفری میں سنتری جو گھبرا گیا، گاڑی کو فوری نیچے اتارنا ممکن نہ تھا پولیس بھی موقع پر آپہنچی اور ساتھ ہی میڈیا کے نمائندے بھی  ۔ گاڑی کی جانچ پڑتال ہوئی تو صرف گاڑی کی ڈگی میں ہی نہیں ،گاڑی کا جو حصہ کھولا جاتا بھاری اسلحہ ڈیٹونیٹر آرڈی ایس برآمد ہوتا ۔ ایس ایچ او صاحب کو فوری گرفتار کر لیا گیا، اور ان کو تھانہ میں لے جا یا گیا ۔ ان حضرت کی غفلت کی انتہا یہ تھی کہ انہوں نے گاڑی لے کر ڈگی کھولنا بھی مناسب نہ سمجھا اور  اس کو لا کر ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں کھڑا کر دیا گیا ۔

  اگر وہ گاڑی میں موجود بارود پھٹ جاتا تو کون ذمہ دار  ہوتا ؟  کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی ! اس کی گرفتاری کے بعد ہم نے ایک سورس سے کیس کی صورت حال دریافت کی تو معلوم ہوا کہ آئندہ ایک میٹنگ ہونےوالی ہے جو کہ ڈی آئی جی صاحب کے زیر صدارت ہوگی ۔ ہم اس کے انتظار میں تھے کہ پولیس اس کی تہہ میں پہنچ کر اس ایس ایچ او کی غلفت اور ایم پی اے کا حساب کرپاتی ہے یا نہیں؟  کیونکہ معاملہ ہائیکورٹ تک  ہی نہیں پہنچا  بلکہ میڈیا پر بھی ہیجان برپا کر چکا تھا ۔

 میٹنگ کے بعد ہم نے دوبارہ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ بجائے ذمہ داران کو پکڑنے کے اوپر سے آڈر آئے ہیں کہ ایم پی اے پر ہاتھ نہ ڈالا  جائے،  پارٹی کی ساکھ خراب ہو سکتی ہے اور ایس ایچ او کو بھی بچایا جائے ۔ اور کیسے بچایا جائے یہ اس میٹنگ میں طے پایا گیا ۔ ہم سر پیٹنے پر مجبور ہوگئے کہ کیسے ایک انتہائی غافل، رشوت خور کو آزاد کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟

ہمارے ذرائع تو ہمیں یہ سب بتا کر چلے گئے ۔ ہم مایوسی کے حال میں بیٹھے یہ سوچ رہے تھے کہ یہ نظام کبھی بدلے گا ؟ ہر شہری یہ جانتا ہے کہ کس حد تک منشیات فروشی اور ہر قسم کے مافیا میں ایم این ایز اور ایم پی ایز ملوث ہیں ۔

 رہی بات پولیس کی تو اٹھارہ سو اکسٹھ کا بنایا ہوا پولیس ایکٹ آج بھی نافظ  ہے، جس میں کا بنیادی مقصد  خدمت  کبھی تھا ہی نہیں یہ پولیس عوام کو دبانے اور ظلم و ستم کے لئے بنائی گئی تھی اور آج بھی سیاست دان ان سے یہی کام لیتے آ رہے ہیں ۔ جب تک سیاست دان پولیس  کو گھر کی لونڈی سمجھتے ہوئے  اس کا استعمال بند نہیں کریں گے، تب تک پولیس تبدیل نہیں ہوگی ۔ قانون صرف ایک غریب کے لیے ہی جو چوری یا دیگر جرائم میں ملوث ملے تو فوری طور پر جیل بھیج دیا جاتاہے،  یہ بات شائد بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کا اغوا شدہ بیٹا فیصل آباد کے علاقےسمن آباد میں ایک ایم این اے کے ڈیرے کے قریب قید رہا ۔  عوام جب تک ان سیاست دانوں کو اپنا مسیحا سمجھتی رہے گی، تب تک یہ اس کو یوں ہی نوچ کر کھاتے رہیں گے ۔ یہ نظام ناقبل قبول ہے اور اس کو چلانے والے بھی ۔ جس دن عوام یہ بات سمجھ جائے گی ملک میں حقیقی تبدیلی آجائے گی !

جواب چھوڑ دیں