مجرموں کو سزا دینا خوشحالی کی ضمانت

یہ ان دنوں کی بات ہے جب نواب آف کالا باغ امیر محمد خان موجودہ پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک تھے، نواب صاحب  اپنے سخت گیر طرز حکمرانی کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ ان کے دور حکومت میں لاہور سے پانچ سال کا ایک بچہ اغوا ہوگیا ۔ نواب آف کالا باغ نے ایس ایس پی کو بلو ا کر 24 گھنٹے کے اندر بچہ بازیاب کرانے کا حکم دیا لیکن پولیس نے مغوی بازیاب نہ کرایا۔

بچہ بازیاب نہ ہونے پر نواب آف کالاباغ نے اگلے دن اے ایس پی ، ایس پی اور ایس ایس پی کے بیٹوں کو اٹھوا کر کالاباغ بھجوادیا اور اعلان کردیا کہ جب تک مغوی بچہ نہیں ملے گا، تب تک افسران کے بچے واپس نہیں ملیں گے،ان کا یہ نسخہ کامیاب ہوا اور پولیس نے اسی دن بچہ بازیاب کرالیا۔

یہ واقعہ گذشتہ روز وزیر مملکت علی محمد خان کی طرف سے پیش کی جانے والی قرارداد کی مخالفت پر یاد آگیا، قرارداد کے مطابق بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر اُنھیں قتل کرنے کے مقدمات میں ملوث مجرمان کو سرعام پھانسی کی سزا دی جائے گی۔ وزیر مملکت علی محمد خان نے یہ قرارداد وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب کی خواہش پر پیش کی۔

خان صاحب کی یہ خواہش  ہر دردمند دل رکھنے والے  پاکستانی کے دل کی آواز ہے ، مجھے پورا یقین ہے کہ اگر قرارداد کی مخالفت کرنے والوں کا اپنا یا ان کا رشتہ دار بچہ  ان 17862 بچوں میں شامل ہوتا، جن کو گذشتہ پانچ سال میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو یقینی طور پر وہ قرارداد کی مخالفت نہ کرتے۔جی ہاں آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جہاں پر جگہ ، جگہ مساجد موجود ہیں، کوئی مذہبی اجتماع ہو جائے تو لاکھوں لوگ جان ومال کے ساتھ حاضر ہوجاتے ہیں، علما اکرم کی اس قدر بہتات ہے کہ اینٹ اٹھاؤ تو عالم ، حافظ مل جاتا ہے، لاوڈ اسپیکر کے عام  استعمال  کی بدولت اگر آپ مسجد میں نہ بھی جائیں تو گھر میں بھی درس سن سکتے ہیں ، اور اب تو کچھ علما نے  سوشل میڈیا پر بھی دھرنا دیا ہوا ۔

 اسلامی ملک میں آج  سے دوسال قبل قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے چاروں صوبوں میں گذشتہ پانچ سال کے دوران بچوں سے زیادتی کے 17862 واقعات رپورٹ ہوئے۔ پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والےایک غیر سرکاری ادارے ‘ساحل’ کے مطابق  پاکستان میں روزانہ 11 بچے جنسی زیادتی کا شکار بنتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق 60 فیصد کیسز میں بچے کو ہراساں کرنے والے قریبی لوگ یا خاندان کے افراد ہوتے ہیں، 2016 کے دوران بچوں سے جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات میں دس فیصد اضافہ ہوا ۔ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق2016 میں جنسی زیادتی سمیت اغوا، گمشدگی اور جبری شادیوں کے4139 کیس رجسٹرڈ ہوئے اور یہ تعداد 2015 کے مقابلےمیں دس فیصد زیادہ  تھی۔

ملک میں جنسی تشدد کے بڑھتے واقعات اس بات کے متقاضی تھے کہ اس بدترین فعل میں ملوث افراد کو  عبرت  ناک سزائیں دی جائیں، نہ کہ بین الاقوامی معاہدات کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی جائے،  اس موقع پر  اداکارہ مہوش حیات نے بجا کہا ہے  وہ  لکھتی ہیں کہ ’

“عجیب بات ہے، جب یہ ریپ اور قتل کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں تو ہم ان مجرمان کو سرے عام پھانسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جب حکومت اس سے اتفاق کر لیتی ہے تو ہم ’انسانی حقوق کی پامالیوں‘ کے پیچھے چھپنے لگتے ہیں۔ یہ بدقسمتی ہے لیکن ہمیں معاشرے سے اس گندگی کو ختم کرنے کے لیے سخت اقدامات کرنے ہوں گے”

ضرورت اس امر کی ہے کہ علی محمد خان  کی پیش  کردہ یہ قرارداد سینیٹ سے منظور ہونے کے بعد قانون بن کر انسانیت دشمن لوگو ں پر تازیانہ بن کر برسے، کیونکہ یہ علی یا خان کی خواہش نہیں ہے ہر  درد مند پاکستانی کی خواہش ہے اس معاملے میں ہر پاکستانی علی بھائی کے ساتھ ہے۔

جواب چھوڑ دیں