صدقہ

میری نانی اماں بتا رہی تھیں کہ صرف ایک مرتبہ نہ جانے کیوں وہ پریشان تھیں ، اداس تھیں ، ہوتا ہے کبھی انسان حالات سے ، یکساں معا ملات اور ذمہ داریوں سے کبھی ذرا بور سا ہو جاتا ہے ، تھک جاتا ہے اور مایوس ہو جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ وقت ہی مرہم بن کر اس کیفیت کو ختم کرتا ہے تو بہر حال وہ کہہ رہی تھیں کہ ہمارے گھر کا دروازہ کھلا رہتا تھا ، پردہ پڑا رہتا تھا کوئی اڑوسی پڑوسی خاتون آجاتیں اور باتیں کرنے لگتیں ، قریب قریب لوگ رہتے تھے ۔ کبھی کوئی کچھ لینے آگئی ، کبھی اطلاع دینے آگئی ۔ معمولی ناشتہ چائے پاپا لیکر بیٹھی تھی مگر دل نہیںچاہ رہا تھا کھانے کو اور آنکھوں میں اندھیرا سا چھایا ہوا تھا ۔ اتنے میں ایک بچہ اور بچی چھ ، آٹھ سال کے کچھ مانگتے ہوئے سنائی دیئے ، میں نے پردے ہی میں سے کہا اندر آجائو ۔ دیکھا بھی نہیں کون ہیں وہ دونوں اندر آگئے اور بے چینی سے ہاتھ پاپے کی طرف بڑھا دیا ۔ میں نے پلیٹ آگے کردی اور چائے کا پیالہ بھی اور زیادہ متوجہ بھی نہ تھی نہ جانے کن فکروں میں کھوئی ہوئی تھی ، اندھیرا سا لگ رہا تھا جیسے رات ہونے والی ہے ۔ چند ہی سیکنڈوں میں وہ بچے سارے پاپے اور چائے کھا پی کر بہت زیادہ خوش ہوگئے اور جھک کر مجھے دیکھنے لگے بنا کچھ کہے باہر بھاگنے لگے پردہ ہٹا کر چلے گئے ۔ میں نے ان کو جاتے بھی پوری طرح نہ دیکھا بلکہ نظر اٹھا کر ان کو جاتے دیکھا ان کا پچھلا حصہ ، مگر نہ جانے کیا بات ہوئی جیسے ہی میری نظریں اٹھیں ۔ اندھیرا چھٹتا گیا اور روشنی بڑھتی گئی ۔ ساتھ ہی میری طبیعت میں ایک خوشی اور بشاشیت کی لہر دوڑ گئی جیسے زندگی کی صبح خوشیوں بھری نکھر آئی نہ بھوک احساس رہا نہ پیاس کا ایک طبعیت تازہ دم ہوگئی ۔ ایسا لگا جیسے اندھیروں کا پردہ اٹھ گیا جیسے وہ فرشتے تھے ۔ میں نے تو صدقے کی نیت بھی نہیں کی تھی صرف بچوں کی نحیف آواز سن کر انہیں اپنے حصے کا ناشتہ دیا اور اس معمولی صدقے نے زندگی کو روشن کردیا ۔ کہنے لگیں بیٹا آج تک میں اس واقعے کو بھلا نہ سکی مگر جب بھی میں سوچتی ہوں اس بارے میں دوبارہ تازہ دم ہوجاتی ہوں یہ میرے رب کا خاص کرم ہے پھر میں نے یہ واقعہ اپنے بچوں یعنی میری والدہ، خالہ ، ماموں وغیرہ کو سنا یا ، نانا ابا مرحوم کو سنایا ۔ سب ہی مسرور ہوئے، سب نے اشیاء خوردنی دینا سیکھا ۔ الحمد للہ آج میں جب بھی اس واقعے کو یاد کر تی ہوں تو یقین جانیے مجھے بھی خوشی ہوتی ہے ۔ میں بھی کوشش کرتی ہوں کہ کچھ نہ کچھ دے دیا کروں ۔ ہر چیز میں قربانی ہوتی ہے ۔ اپنی پسندیدہ چیز راہ خدا میں دینے کا مزہ ہی اور ہے ۔ ایک ہماری ڈا کٹر عطاء (ڈاکٹر زبیدہ عطا ء مر حومہ ) ہوتی تھیں ان کو میں نے بچپن میں دیکھا وہ جب بھی آم، سیب لاتیں پہلے اپنے نوکر کو کہتی پہلے تم اس میں سے اپنی پسند سے آم لے لو ۔ سیب ہو تو سیب لے لو پھر ہم دوستوں اور اپنے بچوں کو دیتی تھیں ۔ ان کے بچے اس بات کے عادی اور ذہنی طور پر تیار تھے ۔ لیکن آج جب میں لوگوں کے روئیے دیکھتی ہوں بڑا فرق آگیا ۔ لوگ اپنے سگوں سے بے اعتنائی برتتے ہیں ۔ حق دار کو بھی نہیں دیتے خود غرضی ایسی منہ کو لگی ہے کہ کیا بتا ئوں جب ہمیں اتنا برا لگتا ہے تو معصوم بچے کیا سبق سیکھتے ہونگے ؟ آج بچے اپنی معمولی چیزیں شیئر کرنا پسند نہیں کرتے نہ کھانے پینے کی نہ استعمال کی ذمہ دار کون ؟ رول ماڈل کہاں؟ سوچنے کا مقام ہے ۔ مغربی تہذیب اور نقالی نے ہم سے ہماری اقدار چھین لی ہیں ۔ لیکن پھر بھی ہم نا امیدنہیں ہیں ۔ لوگوں کی قسمیں ہیں طر ح طرح کے لوگ ہیں تو کچھ لوگ واقعی کہانی ہوتے ہیں جو دنیا کو سنائی جائے اور یوں وہ کہانی ان کی نشانی بن جاتی ہے۔کچھ لوگوں کا ساتھ تو اتنا اچھا اور مختصر ہوتا ہے کہ چند لمحوں میں دل موہ لیتے ہیں ۔ ہم ان سے ملنا بھی چاہیں تو ناممکن ہو جا تا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ اتنے اچھے خیالات رکھتے ہیں ان کے جذبات اتنے اچھے اور دیرپا ہوتے ہیں جو دلوں کو خوشی اور سکون دیتے ہیں جبکہ بعض لوگ اتنا برا رویہ دکھاتے ہیں کہ ان کو سوچ کر آنکھ بھیگ جاتی ہیں ہر بار دل اتنا کڑھتا ہے۔ بعض لوگوں کو دیکھیں اتنے مہربا ن مخلص اور قدر دان ہوتے ہیں کہ کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ آپ ان کو ڈوبنے والوں کے لیے تنکوں کا سہارا یا کنارہ کہہ سکتے ہیں ۔ بچے بھی ہر وقت ان لوگوں کا شکار ہوتے ہیں بڑے بھی ظاہر ہے ہر کسی سے واسطہ پڑتا ہے سیکھنے کو ملتا ہے جبکہ بعض لوگ تو اتنے مضبوط ہوتے ہیں ہر مصیبت چٹانوں کی طرح سہہ جاتے ہیں کچھ جن کو توکل کی کمی ہوتی ہے صبر نہیں کر پاتے اور مٹی کے گھروندے کی مانند ٹوٹ جاتے ہیں ۔ اس کے بر عکس کچھ لوگ بادلوں کی طرح یا درختوں کے سائے کی طرح دوسروں کو راحت دیتے ہیں ۔ اتنے بلند حوصلہ بلند کردار کہ دوسروں کی اندھیری راہوں میں چرا غوں کی صورت اجالا کرکے دوسروں کا سکھ بانٹتے ہیں ۔ سارے لوگ ایسے نہیں ہوتے بلکہ کچھ لوگ اس کا الٹ ہوتے ہیں بجائے اندھیرا دور کرنے کے برائیوں کی کالک اپنے ہی چہرے پر ملتے ہیں ۔ مشاہدات بتاتے ہیں کہ لوگ کیسے ایک دوسرے کی تکلیف کا باعث ہوتے ہیں جنہیں کوئی بھی کبھی بھی پسند نہیں کرتا ۔ جبکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو برسوں ساتھ رہنے کے باوجود ساتھ نبھاتے نہیں بلکہ مخالف ہو کر ہمیشہ کے لیے جدا ہو جاتے ہیں اس کے برعکس کچھ دوست احباب اچھے لوگ نیک لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اپنے کردار کے باعث اتنا دل و دماغ پر اثر کرتے ہیں کہ گویا دھڑکن میںبسے ہوتے ہیں ہم کبھی بھلا ہی نہیں سکتے بلکہ دوسروں سے انکا تذکرہ کرتے ہیں ان جیسے بننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ سچی اور اچھی باتیں بہر حال اپنا اچھا اثر رکھتی ہیں اور شخصیت سنوار کر معاشرہ بناتی ہیں ۔ وہ ہمیشہ کہتی تھیں “کر بھلا ہو بھلا ” واقعی یہی سچ ہے ہمیں کبھی بھی برا کام کرنا تو کیا سوچنا بھی بھی نہیں چاہیے بلکہ ہر وقت لوگوں کا دکھ سکھ بانٹتے رہنا چاہیے ، جو زندگی کی راعنائی ہے اور روح کی توانائی ہے۔

جواب چھوڑ دیں