کہیں چکی کے دو پاٹ پیس کر نہ رکھدیں

خارجی معاملات پر بھی اکثر ہماری سیاسی پارٹیاں سیاست پر اتر آتی ہیں جس کا مستقبل میں پاکستان کو بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ امریکا ہم سے ہزاروں میل کے فاصلے پر ہے جبکہ چین سے ہماری سرحدیں ملی ہوئی ہیں۔ پاکستان نے ایوب خان کے زمانے سے یہ چاہا کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی امریکا کی بجائے چین سے استوار کریں۔ پاک چین دوستی کی ابتدا بے شک ایوب خان کے دور حکومت سے ہوئی لیکن اس خواہش کو عروج بھٹو دور میں حاصل ہوا۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اس وقت وہ کون سی لابی تھی جو نہ صرف اس راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنی بلکہ دونوں دور حکومتوں کے دوران ہی یہ بات ممکن نہ ہو سکی کہ ہم چین سے اپنی قربت بڑھا سکیں نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان امریکا کی زلفِ گرہ گیر کا ایسا اسیر ہوا کہ اس کے فسوں سے آج تک اپنے آپ کو باہر نہیں نکال سکا۔

چین نے ہمیشہ پاکستان سے قربت چاہی اور اپنی پالیسی کو آج تک ترک نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نواز شریف کے تیسرے دور میں ایک مرتبہ پھر چین سے شاندار معاہدے ہوئے اور سی پیک کے معاہدے سے ایسا لگا کہ جیسے پاکستان کیلئے یہ منصوبہ پاکستان کو خوشحالی کی جانب لیجانے میں بڑی حد تک کامیاب ہو جائے گا۔ بد قسمتی سے یہ منصوبہ بھی سیاسی چاند ماری کا نشانہ بنا اور موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے قبل اس کی بہت بڑے پیمانے پر مخالفت کرکے ان لاکھوں افراد کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جو نظریاتی اعتبار سے نہ صرف چین کے مخالف تھے بلکہ وہ سی پیک کیلئے یہ خیال کرتے تھے کہ اس طرح چین پاکستان پر اپنے نظریات کی یلغار کرکے شعائرِ اسلامی کو بھی شدید نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اقتدار میں آتے ہی موجودہ حکومت نے فوری طور پر سارے منصوبوں کا از سرِ نو جائزہ لینا ضروری خیال کیا جس کی وجہ سے نواز دور میں جو کام نہایت تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہے تھے وہ نہ صرف سست پڑ گئے بلکہ عملاً سی پیک بھی خطرے میں پڑ گیا۔

اس منصوبے کے آغاز ہی میں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ بھارت اور امریکا اس منصوبے کے سخت خلاف ہیں اور ان کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس کو کسی صورت پروان نہیں چڑھنے دیں۔ ایک جانب امریکا اور بھارت کا سی پیک کی جانب سے مخالفت کا سامنے آنا تو دوسری جانب موجودہ حکومت کا سی پیک کے ہر پروجیکٹ کی مخالفت کی بنیاد پر وجود میں آنا، سونے پر سہاگہ کا کام کر گیا اور تا حال یہ عالم ہے کہ اسے جاری رکھا جائے یا اس سے ہاتھ کھینچ لیا جائے کہ بیچ پاکستان بری طرح پھنسا ہوا نظر آتا ہے اور بقول غالب کوئی روکے ہے تو کوئی کھینچے ہے یعنی کوئی آگے ہے تو کوئی پیچھے ہے۔

چین کیا چاہتا ہے اور امریکا کے ارادے کیا ہیں، اس بات کا اندازہ ان دو بیانات کی روشنی میں صاف صاف پڑھا جا سکتا ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے سی پیک پر اپنی تنقید دوہراتے ہوئے اسلام آباد سے اس میں شمولیت کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا کہا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق تھنک ٹینک کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے پر تنقید کی۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ سی پیک منصوبوں میں شفافیت نہیں، پاکستان کا قرض چینی فنانسنگ کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ ان کا یہ بیان اس سے قبل 21 نومبر 2019 کو واشنگٹن کے ولسن سینٹر میں دیے گئے ریمارکس جیسا ہی تھا تاہم اسلام آباد کے دورے اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے امریکا اور پاکستان کے درمیان تجارت بڑھانے اور سرمایہ کاری پر مبنی تعلقات بنانے پر زور کے بعد ان کا دوبارہ یہ دعویٰ اب مزید اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ سی پیک پر الزامات لگاتے ہوئے ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ ورلڈ بینک کی جانب سے بلیک لسٹ کی گئی کمپنیوں کو سی پیک میں کنٹریکٹ ملے ہیں۔ مزید برآں امریکی سفیر نے حال ہی میں قائم کی جانے والی سی پیک اتھارٹی کو مقدمات سے استثنا ہونے پر بھی سوالات اٹھائے۔ قرضوں کے مسئلے پر ایلس ویلز نے زور دیا کہ چینی پیسے معاونت نہیں کر رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ منصوبوں کے لیے چین سے فنانسنگ حاصل کرکے پاکستان مہنگے ترین قرضے حاصل کر رہا ہے اور خریدار ہونے کے ناطے اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا کر رہا ہے کیونکہ اس سے ان کی پہلے سے کمزور معیشت پر بھاری بوجھ پڑے گا۔

امریکی نائب وزیر خارجہ کی جانب سے جو خدشات بھی ظاہر کئے گئے ہیں یا باالفاظِ دیگر جو الزامات بھی چین پر لگائے گئے ہیں وہ کس حد تک درست یا کس حد تک غلط ہیں، اس بات کا فیصلہ تو پاکستان کے مقتدر حلقے ہی کر سکتے ہیں لیکن یہ بات تو طے ہے کہ بظاہر اس معاہدے کی وجہ سے پاکستان آگے کی جانب بڑھتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ اگر دیانتدارانہ انداز میں دیکھا جائے تو چین کے سارے منصوبے ساتویں ایٹمی بحری بیڑے کی طرح ثابت نہیں ہوئے تھے جو 1971 سے اب تک پاکستان کے ساحل تک پہنچنے میں ناکام ہے۔ پاکستان امریکا کی جانب سے لگائے گئے اس الزام کا جواب دیتا ہے یا نہیں لیکن چین کی جانب سے امریکا کی جانب سے لگائے گئے ان الزامات پر شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔ چین نے کہا ہے کہ اقتصادی راہداری میں امریکی مداخلت کی مذمت اور بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔ امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کے بیان پر چینی سفارتخانے کے ترجمان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ایلس ویلز کے منفی بیان میں کوئی نئی بات نہیں، نومبر 2019 والی تقریر کی تکرار ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکا کے منفی پراپیگنڈے کو سختی سے مسترد کرتے ہیں،امریکی اقدامات عالمی معیشت کے لیے نہیں، اپنے مفاد کے لیے ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا دنیا بھر میں پابندی کی چھڑی لے کر گھومتا ہے اور ممالک کو بلیک لسٹ کرتا ہے۔ امریکا حقائق سے آنکھیں چرا کر سی پیک پر اپنی بنائی ہوئی کہانی پر قائم ہے۔ چین کی جانب سے مزید کہا گیا کہ چین پاکستانی عوام کے مفادات کو ترجیح دیتا ہے، گزشتہ 5 برس میں 32 منصوبے قبل ازوقت مکمل ہوئے، ان منصوبوں سے 75 ہزار افراد کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔ امریکا خود ساز قرضہ جات کی کہانی میں مبالغہ آرائی کر رہا ہے،امریکا کا حساب کتاب کمزور اور ارادے برے ہیں، چین نے کسی ملک کو قرضوں کی ادائیگی کے لیے مجبور نہیں کیا، چین پاکستان سے بھی غیر معقول مطالبات نہیں کرے گا۔

ایک طرف امریکا کی جانب سے دیئے گئے بیان کو سامنے رکھا جائے اور دوسری جانب چین کی جانب سے امریکی بیان کی تردید کو پرکھا جائے تو یہ بات بہت اچھی طرح محسوس کی جاسکتی ہے کہ پاکستان نے جب سے چین کی جانب

دوستی کا قدم بڑھایا ہے، امریکہ کھل کر اس اقدام کی مخالفت پر اتر آیا ہے۔ اس وقت سی پیک کے سلسلے میں بھارت اور امریکہ ایک ہی صفحے پر کھڑے نظر آتے ہیں اور بہت کھل کر سامنے آئے ہوئے ہیں۔

جو ملک بھی اپنے معاملات میں خود مختار نہیں ہوتا اس کے ساتھ ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ پاکستان نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ اسے گداگری سے باہر آنا چاہیے۔ پاکستان ایک طویل عرصے سے دنیا کے آگے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہے اور اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ وہ ملائیشیا تک کا سفر بھی اپنی مرضی سے کرنے کے قابل نہیں رہا۔

پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بڑھائے یا نہیں، یہ سوال تو اپنی جگہ لیکن جو انکشافات ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں وہ اور بھی ہوش اڑا دینے والے ہیں اور بہت سنجیدگی مانگتے ہیں۔ انھوں نے انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ “پاکستان سے تعلقات پر صدر ٹرمپ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر نہیں، امریکا کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے اور امریکا بھارت کو خطے میں اسٹریٹجک پارٹنر سمجھتا ہے”۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ بیان غیر معمولی ہے۔ یقیناً انھیں اس بات کا مکمل طور پر ادراک ہوگا کہ صدر ٹرمپ جس قسم کے تعلقات پاکستان سے استوار کرنا چاہتے ہیں وہ امریکا کی مقتدرہ نہیں چاہتی اور اس کی خواہش ہے کہ بھارت اس کا شریک کار بن کر رہے۔ اگر ان کا یہ خیال درست ہے تو پھر امریکا سے تعلقات برقرار رکھنے سے متعلق پاکستان کو بہت کچھ سوچنا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ امریکہ میں جاری دو بیلوں کی جنگ میں پاکستان کو استعمال کئے جانے کے بعد کچل دیا جائے۔

ایک جانب پاکستان کے ساتھ تعلقات کی خوشگواری خود وہاں کے صدر اور وہیں کی اسٹبلشمنٹ کے درمیان شٹل کاک بنی ہوئی ہے تو دوسری جانب پاک چین دوستی اور امریکی قربت کی باتیں شش و پنج کا شکار نظر آتی ہیں۔ امریکا کی نظر میں پاکستان کا چین سے قربت بڑھانا پاکستان کی معیشت کیلئے خطرہ ہے تو دوسری جانب چین نے اس قسم کے ہر

خدشے کو سختی کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ وہ کبھی بھی پاکستان کے مفادات کو ٹھیس نہیں پہنچائے گا۔

پاکستان کے سامنے آپشن کھلا ہوا ہے، وہ اپنے مفادات کی تکمیل امریکہ سے تعلقات میں پوشیدہ سمجھتا ہے یا چین سے قربت اس کی معیشت کو آگے لے جاسکتی ہے۔ پاکستان نے اگر اس اہم موڑ پر فیصلہ کرنے میں بال برابر بھی غلطی کی تو یہ بات پاکستان کیلئے بہت مہلک ثابت ہو سکتی ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ جو فیصلہ بھی کیا جائے وہ نہایت سوچ بچار کے بعد کیا جائے ورنہ پاکستان، چین اور امریکا کی چکی کے دو پاٹوں کے بیچ بری طرح پس کر رہ جائے گا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں