خزاں رسیدہ چنار

27اکتوبر1947کی سیاہ رات کو کرہ ارض پر موجود جنت نظیر وادی کشمیر کو ظالم ہندو بنئے نے اپنے بے رحم بوٹوں تلے روندھ ڈالا۔وہ رات جو اپنے ساتھ ظلم وبربریت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے لے کر آئی،جس رات کی صبح آج تک نہ ہو سکی۔

واقعہ کچھ یوں ہےکہ کشمیری مغلوں کے دور سے ہی اپنے اوپر قابض بیرونی طاقتوں کے خلاف برسرپیکار تھے۔انیسویں صدی کے اوائل میں شاہی نظام کے خلاف ایک جمہوری عوامی نمائندہ حکومت کے نظریے نے فروغ پایا اور کشمیری ایک انقلابی جدوجہد لے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔اس بغاوت میں اس وقت تیزی آ گئی جب 1947میں تقسیم ہند کے موقع پر یہ تاثر ابھرا کہ کشمیری مہاراجہ ہری سنگھ بھارت سے الحاق چاہتا ہے جبکہ کشمیری عوام الحاق کی صورت میں پاکستان کے حامی تھے۔دراصل ہندو انگریز سازش کے تحت شروع سے ہی کشمیر کا معاملہ ملتوی کر دیا گیا۔

بہرکیف کشمیری مجاہدین نے زبردست مزاحمت کی اور راجہ کو ناکوں چنے چبوا دیے۔بعدازاں پاکستانی قبائلی بھی مجاہدین کے ساتھ شامل ہو گئے اور ایک حصہ راجہ کے تسلط سے آزاد ہو گیا۔راجہ نے صورتحال سے گھبرا کر ہندوستان کی گود میں پناہ لی اور مدد طلب کی، جسے اس نے الحاق کی شرط کے ساتھ مشروط کر کے قبول کیا اور اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں۔بظاہر پاکستانی قبائلیوں کی دراندازی سے انڈیا کو کشمیر میں مداخلت کا جواز مل گیالیکن جی پارتھیا سارتھی کی یاداشتوں پر مشتمل کتاب :1995_1915:GPکےمطابق درحقیقت قبائلی حملے سے ایک ماہ قبل یعنی 23 ستمبر 1947میں ہی کشمیر انڈیا الحاق کی بساط بچھائی جا چکی تھی۔یوں اکتوبر 1947کی رات کو انڈین فوج وادی میں داخل ہو گئ۔

مجاہدین بڑی تیزی سے آ گے بڑھ رہے تھے کہ انڈیا کے وزیراعظم لال نہرو نے یہ معاملہ اقوام متحدہ میں پہنچا دیااور UNOنے جنگ بندی کرا دی، لیکن ساتھ یہ یقین دہانی کرائی کہ کشمیرکا فیصلہ ریفرنڈم کے ذریعے کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق کیا جائے گااور اس کی توثیق 2نومبر کو نہرو نے بھی کی کہ یہ الحاق عارضی ہے،حالات معمول پر آ تے ہی ریفرنڈم کے ذریعے فیصلہ کیا جائے گالیکن 72سال سے نہ تو حالات معمول پر آئے اور نہ ہی ریفرنڈم کروایا گیا کیونکہ اس کا نتیجہ ہندوستان کو معلوم تھا۔

اس دوران نام نہاد انتخابی ڈھانچہ اور کٹھ پُتلی حکومت بھی قائم ہوتی رہی، جن میں بھارت نواز لیڈر ہی کامیاب ہوتے رہے۔انتخابی ہیر پھیر کی طویل تاریخ کے بعد1987میں نئ دہلی نے انتخابات میں کھل کر دھاندلی کی جس کے نتیجے میں زبردست شورش برپا ہوئی،کشمیریوں کو ہندوستان کے مذموم ارادے سمجھ آ چکےتھے، لہذا جدوجہد آزادی کو مہمیز مل گئی۔اگرچہ یہ جدوجہد مستقل جاری تھی لیکن حالات کی وجہ سے سرد گرم ہوتی رہی تھی۔اب کشمیر یوں کی جدوجہد باقاعدہ الحاق پاکستان کی جنگ کا روپ دھار چکی تھی۔1989 میں بڑی تعداد میں آزادی پسندوں نے1947کے بیس کیمپوں کا رخ کیااور ازسرنو پوری شدومد کے ساتھ جہاد کا آغازکیا۔اس شورش کو دبانے کے لیے مزید ہندو افواج وادی میں داخل ہو گئیں اور یہ تعداد تقریباً 7لاکھ تک پہنچ گئی، جن نے نہتے لوگوں پر مظالم ڈھائے۔ مختلف اعدادوشمار کے مطابق اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ شہید ہو چکے ہیں،ستر ہزار سے زائد اجتماعی قبروں میں مدفن ہیں۔ہزاروں عورتوں کی عصمت دری ریکارڈ میں موجود ہے۔ان گنت لوگ جیلوں میں قید ہیں۔

2016میں 22سالہ نوجوان برہان مظفر وانی کی شہادت نے ایک مرتبہ پھر اس جہاد کو گرما دیا اور ریاست کے طول وعرض سے کشمیر بنے گا پاکستان اور لے کر رہیں گے آزادی کی صدائیں سنائی دینے لگیں، جن نے غاصب ہندو فوج کی نیندیں حرام کر دیں۔ہمیشہ کی طرح اس جوش کو بھی طاقت سے کچلنے کی کوشش کی گئی اور پیلٹ گنوں کا بے دریغ استعمال کیا گیا، جس سے ہزاروں کشمیری بصارت سے محروم ہو گئے۔ایک رپورٹ کے مطابق 2016تا2018تک ان غیر دھاتی شروں سے ایک ہزار دو سو پچپن لوگ اندھے کر دیئے گئے۔ ابھی یہ آگ ٹھنڈی نہ ہونے پائی تھی کہ گزشتہ سال 5اگست کو ہندوستان نے بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت پرقدغن لگائی۔بھارت کی حکمران اور ہندوتوا کی علمبردار بی جے پی کی آنکھوں میں کب سے کشمیر کی نیم خودمختاری کھٹک رہی تھی؟ چنانچہ اس نے درجنوں درخواستیں اس کے خلاف اعلیٰ عدالت میں جمع کروا رکھی تھیں۔بالاخر بھارتی صدر رام ناتھ کووند نے آرٹیکل 370کے خاتمے کے بل پر دستخط کر دیےاور 5اگست2019کوبی جے پی کے شاہنے بھارتی ایوانِ بالا راجیہ سبھا میں آرٹیکل370اور اس کی شقA-35 کو ختم کرنے کے بل کو پیش کر کے منظور کرا لیا،مزاحمت کو دبا دیا گیا۔اس اثناء میں کشمیر میں ممکنہ احتجاج سے بچنے کے لیے کرفیو نافذ کر دیاگیا ۔

اس آرٹیکل کا اجمالی تعارف یہ ہے کہ یہ کشمیر کی خودمختاری کا ضامن ہے۔1949میں بھارتی آئین سازی کے موقع پر کشمیر کی حیثیت کا مسئلہ ابھرا چنانچہ عارضی انتقال اور خصوصی معاملات سے متعلق نیا آرٹیکل 370 آئین میں شامل کیا گیا۔جس کے تحت کشمیر کی خصوصی حیثیت کو برقرار رکھا گیا۔1953میں بھارت نواز کشمیری وزیراعلی شیخ عبداللہ کی صدارتی حکم نامےپر غیر آئینی معزولی کے بعد جاری چپقلش کو روکنے کے لیے اس وقت کے وزیراعظم لال نہرو نے صدارتی حکم کے ذریعے۔A.35کا اضافہ کیا۔یہ اصل میں اس آرٹیکل370 کی مضبوط اور عملی صورت تھی،فرق یہ ہے کہ 1947میں اسے عارضی شکل دی گئی جبکہ 1953میں اس دفعہ کو مکمل قانونی حیثیت دے دی گئی۔اس دفعہ کا محرک مہاراجہ کے ساتھ ہوئے عہد میں درج تحفظ حقوق باشندگان ریاست کی شرائط ہیں۔

مرکزی حکومت کوئی بھی انتظامی تبدیلی ریاستی اسمبلی کی اجازت سے ہی کر سکے گی۔وفاق ریاست میں ایمرجنسی نافذ نہیں کر سکتا۔اس دفعہ میں کوئی بھی ردوبدل ریاستی اسمبلی کی سفارش پر ہی ممکن ہو گا،مرکز اس کا مجاز نہیں ہو گا۔اب آتے ہیں اے 35کی طرف۔

یہ حصہ ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق کی تعریف کے اختیارات دیتا ہے۔اس کے تحت صرف کشمیر میں پیدا ہونے والا ہی کشمیری شناخت رکھ سکتا ہے۔اراضی کی حفاظت کے پیش نظر کسی ایسی عورت کو جائیداد میں حصہ نہیں ملے گا جو غیر کشمیری سے شادی کرے گی۔کوئی غیر کشمیری زمین نہیں خرید سکتا اور نہ ہی ووٹ کا حقدار ہو سکتا ہے۔ریاست کسی غیر کشمیری کو سرکاری نوکری نہیں دے سکتی۔کوئی بھارتی کارپوریشن یا کمپنی قانونی جواز حاصل نہیں کر سکتی۔ریاست کے اندر رہائشی کالونیاں بنانے،صنعتی کارخانے،ڈیم اوردیگر کارخانے لگانے کے لیے ریاستی اراضی پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔

یوں یہ آرٹیکل کشمیریوں کی نیم خودمختاری کا ضامن تھا، مگر اب یہ بھی قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔اس آرٹیکل کے خاتمے کے دوسرے ہی دن دونوں ایوانوں راجیہ سبھا اور لوک سبھا سے جموں وکشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019ء منظور کرا لیا گیا، جس کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے وفاقی اکائی میں بدل دیا گیا، اس کے ساتھ ہی الگ جھنڈا اور آئین دونوں کا استحقاق ختم ہو گیا۔ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔اول جموں وکشمیرجس کی اسمبلی تو ہو گی لیکن وہ لیفٹیننٹ گورنر کے ماتحت ہوگی، جسکا انتظام نئی دہلی کے پاس ہو گا۔

نریندر مودی سمیت 6لاکھ ارکان پر مشتملRSSاپنے پیشوا مسولینی کی طرح اپنے حریف پر ہر طرح کے ظلم کو جائز سمجھتے ہیں۔مودی کا ایک دست راست اور گجرات میں مسلم کش فسادات کا سرغنہ گریش چندر مومو کو جموں کشمیر کا گورنر نامزد کیا گیا ہے۔مودی کے پالتو وادی میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔شہادتوں میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔سرچ آپریشن اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔بھارتی وزیر مملکت برائے داخلہ نے نومبر میں یہ انکشاف کیا تھا کہ محض تین ماہ میں 5106لوگ گرفتار ہوئے۔اب تو چھ ماہ مکمل ہونے کے ہیں،میڈیا بلیک آوٹ کی وجہ سے اصل حقائق پوشیدہ ہیں۔

کشمیر دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا ہوا ہے۔اگرچہ انڈیا کی طرف سے باربار یہ باور کرایا جا رہا ہےکہ سب معمول کے مطابق ہے، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔جزوی طور سے کرفیواٹھایا گیا ہے، مگر عمومی طور پر کاروبار زندگی معطل ہے۔اشیاءضرورت ناپید ہیں،خوف وہراس اور موت کے سائے چہار سو پھیلے ہوئے ہیں،عزت و آبرو ہر آن داؤ پر لگی ہےاور زندگی سسک رہی ہے۔

جنت نظیر کشمیر کے سرسبزچنار جو کبھی اپنی وادی کےحسن پر نازاں جھومتےتھے،آج خون آشام نظاروں میں لپٹی خزاں کی چادر اوڑھے مغموم کھڑے ہیں،انہیں بھی تا حد نگاہ کوئی ناصر نظر نہیں آتا۔کشمیری بچے راہوں کو تکتے نابینا کر دیے گئے،کشمیری بہنوں کے آنچل گرد آلود ہو گئے۔ اتنی طویل لڑائی میں ایک بھی گھر ایسا نہیں جس نے اپنے خون اورعزت و آبروسےاس مٹی کی زکوۃادا نہ کی ہو۔

2019ختم ہوا اور 2020کا سورج طلوع ہوئے بھی مہینہ بیت گیا لیکن کشمیر کے لیے کوئی نوید نہ آئی۔مسیحا کا انتظار کرتے کرتے شاید اب ان نے بھی مایوسی سے آنکھیں موند لی ہیں۔جس ملک کا پرچم ان کا کفن ہے ،جسکی محبت ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی ہے، اس نے ان کی پکار کا جواب صرف تقریروں سے دیا۔جس ذی روح کی شہہ رگ پر چھرا چلایا جائے وہ کیسے سکون سے جی سکتی ہے؟کشمیر پاکستان کی ضرورت ہے، جغرافیائی،دفاعی اورقدرتی مادی وسائل کے اعتبار سے کشمیر پاکستان کی بقاء کے لئے واقعی شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔

5فروری1990کوجماعت اسلامی کے امیر مرحوم قاضی حسین احمد صاحب کی تجویز پر کشمیر سے اظہارِ یکجہتی کے لیے خصوصی دن منایا گیا اور اس کے بعد ہر سال یہ دن منایا جاتا رہا ہے، لیکن اس اظہار کے باوجود جب کشمیر کو ہماری اشد ضرورت تھی تب ہم زبانی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھ سکے۔دیگرمسلم دنیا بھی خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہےاور بالعموم اپنے دینی بھائیوں کی مدد کے لیے کچھ نہیں کر رہی الٹا اغیار کا ساتھ دینے میں پیش پیش ہے۔شاید سب نے کانوں میں انگلیاں دے رکھی ہیں، تاکہ ان مظلوموں کی دلدوز چیخیں ان کی سماعت سے ٹکرا کر مردہ ضمیر کو کہیں جھنجھوڑ نہ دیں۔لیکن خدا کے سوال سے وہ اپنی سماعت کو کیسے بچائیں گے ؟جو پکار کر کہہ رہا ہے کہ

اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جنگ نہیں کرتے ؟ان لوگوں کی مدد کے لیے جو کمزور

پا کر دبا لیے گئے ہیں،کہتے ہیں وہ !اے ہمارے رب نکال ہمیں اس بستی سے جس کے اہل ظالم ہیں اور بنا دے ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی اور مددگار۔۔۔النساء 75

دنیا میں بھلے ہی کانوں پر پردہ ڈالے رکھیں مگر روز محشر اللہ کی عدالت میں جب ہمارے بھائی یہ مقدمہ لے کر اٹھیں گے تب کوئی جائے فرار نہیں ہو گی۔

اس بار یوم یکجہتی پر ہمارے پاس کوئی بلند وبانگ دعوے نہیں، ہاں ندامت ضرور ہےاور یہ پیغام کہ پاکستانی عوام کے دل اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ صرف اجازت کے منتظر ہیں اپنا تن من دھن ان پر وارنے کے لیے۔

اے مظلومان کشمیر ہم شرمندہ ہیں!

روتی ہے کشمیرکی دھرتی روتے ہیں انسان

شاید ہم کو بھول چکی ہے ارض پاکستان

جواب چھوڑ دیں