کرونا وائرس کے مرکز ووہان کا لاک ڈاون کیوں ؟

چین سمیت دیگر بیس سے زائد ممالک میں اس وقت نوول کرونا وائرس کو شکست دینے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔چین کے شہر ووہان سے جنم لینے والے اس وائرس کے پھیلاؤ کے تناظر میں عالمی سطح پر ہنگامی صورتحال  نافذ کی جا چکی ہے۔چین نے ووہان سمیت وبائی صورتحال سے دوچار دیگر علاقوں میں وسیع پیمانے پر  قرنطینہ کے نفاذ سے ہرممکن کو شش کی ہے کہ وائرس کی روک تھام اور کنٹرول ممکن ہو سکے۔

قارئین کے لیے آسان الفاظ میں قرنطینہ جسے ہم انگریزی میں quarantine  کہتے ہیں ایک ایسی صورتحال ہے، جس میں وبائی یا متعدی امراض میں مبتلا افراد کو الگ رکھا جاتا ہے، جسے یقینی طور پر ایک تکلیف دہ کیفیت قرار دیا جا سکتا ہے، مگر  اس وقت چین نے  قومی اور عالمی سطح  پرصحت عامہ کے تحفظ کے لیے یہ سخت اور ناگزیر قدم اٹھایا ہے۔موجودہ صورتحال میں اس فیصلے کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ رہی کہ ابھی تک نوول کرونا وائرس کے حوالے سے نہ تو کوئی ویکسین دستیاب ہے اور نہ ہی کوئی ایسا مستند اور مروجہ طریقہ علاج جس سے اس وبا کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔

اب تک کے طبی شواہد بتاتے ہیں کہ جنس ،عمر ، رنگ ونسل ،  بناء کسی امتیاز  کے ہر فرد  اس نئے قسم کے کرونا وائرس کا شکار ہو سکتا ہے۔لہذا اس صورتحال میں چین کے پاس بھی ووہان شہر اور دیگر علاقوں کے مکمل لاک ڈاون کے سوا کوئی دوسرا انتخاب نہیں تھا ۔اس سے عکاسی بھی ہوتی ہے کہ چین عوامی مفاد میں کیے جانے والے سخت فیصلوں میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا ہے۔

  قرنطینہ کے بعد سے یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ چین کے دیگر علاقوں میں کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور صرف صوبہ حوبے اور اس کے صدر مقام ووہان میں متاثرہ مریضوں کی تعداد زیادہ ہے۔اب تک اس صوبے سے باہر مریضوں کی موجودگی سے متعلق بھی واضح ہو چکا ہے کہ ان مریضوں کی اکثریت نے یا تو ووہان شہر کا دورہ کیا تھا یا چند روز قیام کیا تھا اور دیگر افراد کے ساتھ رابطوں کے باعث وائرس ووہان سے باہر پھیل گیا۔

صوبے حوبے کے عوام  کو اس وقت آمد ورفت کے حوالے سے جن مسائل اور پابندیوں کا سامنا ہے ،حقائق کی روشنی اور طویل مدتی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ان کی اس عارضی تکلیف سے  نہ صرف چین بلکہ ساری دنیا کا  مفاد وابستہ ہے۔

ذہن میں یہ سوال بھی آتا ہے اگر چین ووہان اور دیگر علاقوں میں عارضی لاک ڈاون کے اقدامات نہ اٹھاتا تو کیا فرق پڑ جاتا ؟

باوثوق تجزیے کے مطابق  آج کی جدید دنیا میں ٹرانسپورٹ کے دستیاب بہترین سہولیات جسے ہم گلوبل ٹرانسپورٹ قرار دے سکتے ہیں ، کی بدولت صرف چھتیس گھنٹوں میں نوول کرونا وائرس  دنیا کے چھ براعظموں کے دیہی اور شہری علاقوں تک پھیل جاتا اور  ایسا تصور بھی محال ہے کہ بعد کی صورتحال کیا ہوتی؟

تیس جنوری کو  چین میں پہلے کرونا وائرس کی تصدیق کو ایک ماہ سے زائد ہو چکا تھا اور  اور ووہان شہر میں لاک ڈاون کو آٹھ روز گزرچکے تھے  ،جبکہ اسی عرصے کے دوران دنیا کے اٹھارہ ممالک کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تصدیق کر چکے تھے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ووہان شہر سے آمد ورفت دنیا کے دیگر ممالک اور اندرون چین جاری رہتی تو آج صورتحال کیا ہوتی؟یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت کو بھی چین کی کوششوں کا کھلے دل سے اعتراف کرنا پڑا اور دنیا بھر میں چین کی کوششوں کو سراہا گیا۔

لاک ڈاون کے باوجود چینی حکومت صوبہ حوبے میں اشیائے ضروریہ اور طبی سازوسامان کی فراہمی کو یقینی بنائے ہوئے ہے ۔یہ صوبہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور بنیادی ضروریات زندگی کی کمی کا شکار  کبھی نہیں ہوا ہے۔ویسے بھی چین میں یہ روایت موجود ہے کہ جشن بہار کے موقع پر عوام خوراک اور دیگر  اشیاء پہلے سے  ہی اسٹور کر لیتے ہیں اور ووہان کے باسیوں کی اکثریت لاک ڈاون سے قبل ہی اس فارمولے پر عمل پیرا تھی۔لہذا اس وقت صوبے میں خوراک سمیت دیگر اشیاء کی کمی نہیں ہے۔

صوبہ حوبے میں اے گریڈ اسپتالوں کی مجموعی تعداد  72  ہے ،جبکہ  طبی سہولیات فراہم کرنے والے دیگر اداروں کی تعداد 942  ہے۔چین میں دس سرفہرست اسپتالوں میں سے دو اسپتال ووہان شہر میں موجود ہیں۔اس کے باوجود چینی حکومت نے نوول کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لیے الگ سے دو اسپتالوں کی تعمیراتی سرگرمیوں کا آغاز کیا ،جبکہ دوسرا اسپتال بھی  تکمیل کے مرحلے میں ہے۔ان دونوں اسپتالوں میں دو سے تین ہزار مریضوں کو علاج کی سہولت فراہم کی جا سکے گی۔چین نے اس سے قبل دو ہزار تین میں سارس وائرس کو شکست دی تھی اور اس مرتبہ بھی چینی عوام کے ساتھ ساتھ دنیا بھی پر اعتماد ہے کہ چین نوول کرونا وائرس کے خلاف بھی فتح  حاصل کرے گا ۔

جواب چھوڑ دیں