آج تم کل ہماری باری ہے

لگتا ہے کہ بادشاہت یا کرسی کا نشہ ایسا ہے جس کے آگے تمام مقاصدِ حیات ہیچ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ جب کرسی ہی خدا، کرسی ہی رسول اور کرسی ہی کتاب بن جائے تو پھر سارے رشتے، سارے ناطے، سارے تعلق اور سارے اصول کرسی کی شکل و صورت اختیار کر لیتے ہیں اور اگر سنجیدگی کے ساتھ دیکھا جائے تو ہر وہ فرد جو اس کرسی سے چمٹا ہوتا ہے وہ خود کرسی ہی کا روپ دھار چکا ہوتا ہے۔ ہمارے جتنے بھی غیور “عرب” ہیں وہ سارے کے سارے عرب سے زیادہ “ارب” کے غلام بن کر رہ گئے ہیں اور جب کوئی دین اور دھرم کو بھلا کر کرسی کا پجاری بن جاتا ہے تو پھر وہ اپنی نسل کو بھول کر اربوں اور کھربوں کے پھیر میں ایسا پھنس جاتا ہے کہ وہ یہ تک بھول جاتا ہے کہ وہ ایک ایسے پیغمبر کی اولادوں میں سے ہے جو عرب تھے اور وہ تمام انسانوں کو اربوں کھربوں کی ہیرا پھیری سے نکال کر فلاح و کامرانی کی راہ پر ڈالنا چاہتے تھے۔

محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم تو آئے ہی اس لئے تھے کہ انسانوں کو ہر قسم کی غلامی سے آزادی دے کر صرف اور صرف ایک خدا کی بندگی میں دے جائیں، لیکن وہی قوم جس کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر غلامی سے نکال کر آزادی جیسی دولت بخشی وہ ساری دنیا کی غلامی اختیار کرنے کیلئے تیار و آمادہ ہے اور محض اپنے تخت و تاج کی خاطر وہ دین و دھرم تک بیچنے کیلئے تیار ہے۔

کون نہیں جانتا کہ مسلمانوں کا قبلہ اول بیت القدس تھا۔ یہ وہ مسجد ہے جہاں ہمارے پیارے بنی کو معراج کی شب لیجایا گیا اور وہاں آپ نے نہ صرف تمام انبیاؑ امامت کی بلکہ وہاں سے آسمانوں کا سفر بھی کیا۔ وہی بیت المقدس جس پر مسلمانوں کی حکومت پورے جاہ جلال کے ساتھ ہوا کرتی تھی، مسلمانوں کے زوال کے بعد اس پر یہودی دوبارہ نہ صرف قابض ہو گئے بلکہ ایک سیاہ ترین وقت وہ بھی دیکھنا پڑا کہ یہودیوں نے قبلہ اول کو آگ بھی لگا دی۔ اس دردناک واقعے کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں میں رنج و غم کی ایک لہر دوڑ گئی اور ایسے موقع پر پاکستان کے ایک مشہور شاعر جناب نعیم صدیقی نے درد و سوز میں ڈوبا ہوا یہ شعر کہا کہ

لعنت خدا کی گردشِ لیل و نہار پر

اقصیٰ میں آکے آگ لگادی یہود نے

پھر کچھ اس طرح بھی عزم کا اظہار کیا تھا کہ

یرو شلم یروشلم

تو اک حریمِ محترم

ترے ہی سنگ در پہ آج

منھ کے بل گرے ہیں ہم

تجھے دیا ہے ہاتھ سے

بچشمِ دل بہ زخمَ نم

یروشلم یروشلم

پھر ایک بار آئیں گے

یہ جاں نثار آئیں گے

اجل کی دوش پر سوار

شہسوار آئیں گے

بصد وقار آئیں گے

ترے وقار کی قسم

یہ تو وہ جذبات تھے جو ہر مسلمان کے ہونے چاہئیں تھے، لیکن آج چالیس سال سے بھی زیادہ عرصہ گزرجانے کے باوجود دنیا کے سارے مسلمان سوئے ہوئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ مسجدِ اقصیٰ کو آگ لگانے جیسا واقعہ (نعوذ باللہ) ایسا ہی ہے جیسے کسی اسکریپ کو جلادیا جائے۔ نہ صرف یہ کہ کہیں سے بھی ایسے ناپاک اقدام کی سرکوبی کیلئے کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی بلکہ کوئی سلطان صلاح الدین پیدا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ دنیا کے دیگر مسلمانوں کی بات کسی نہ کسی حد تک دور کی ہے لیکن جن کی نسلیں اسی خطہ زمین سے تعلق رکھتی ہیں، جو اللہ کے فضل و کرم سے سب کے سب مسلمان ہیں، جو اسرائیل کے ارد گرد چاروں جانب پھیلے ہوئے ہیں، حاکم بھی ہیں، بیشمار مادی وسائل بھی رکھتے ہیں اور خود مختار بھی اتنے ہیں کہ وہ جو چاہیں فیصلہ کر سکتے اور اس پر عمل بھی کر سکتے ہیں، لیکن وہ کرسی و اقتدار کے اتنے غلام ہو چکے ہیں کہ کرسی کو کسی بھی طور خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ وہ اسی کرسی کی خاطر اپنا سب کچھ امریکا کے آگے گروی رکھ کر قومِ موسیٰ کی طرح امریکہ سے یہ کہتے نظر آتے ہیں آپ ہمارے مائی باپ ہیں جو چاہے سو کریں، اسرائیل سے لڑنا ہے تو خود ہی لڑیں اور اگر نہیں بھی لڑنا تو جیسی سرکار کی مرضی، ہمیں بس ہمارے اقتدار سے چمٹا رہنے دیں۔

دنیا کے تمام مسلمان آج تک سعودی عرب کو اپنے ہر معاملے میں بڑا سمجھتے رہے ہیں اور جب بھی کسی مسلمان ملک یا دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر کوئی آنچ آتی یا کوئی مصیبت آن پڑتی، وہ سعودی عرب کی جانب ہی دیکھتا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سعودیہ بھی مسلمان ممالک یا مسلمانوں کی جانب سے کبھی غافل نہیں رہا لیکن کچھ برسوں سے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے کہ وہ بہت تیزی کے ساتھ امریکا کے آگے نہ صرف جھکتا چلا جارہا ہے بلکہ وہ ہر اس ملک پر بھی اپنا دباوبڑھاتا جارہا ہے، جس کی خارجہ پالیسی امریکا سے اختلاف پر ہے۔ سعودی عرب نہ صرف امریکی پالیسیوں کی مکمل حمایت میں ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ اب وہ امریکی ہدایت اور پالیسی کا اتنا پابند ہو گیا ہے کہ اس کو اس بات کی بھی کوئی پرواہ نہیں رہ گئی کہ امریکا کی پالیسی مسلمانوں اور مسلمان ممالک کیلئے کتنی تباہ کن ہے؟ جس کی تازہ ترین مثال فلسطین کی تقسیم کا نیا امریکی فارمولا ہے۔

بیت المقدس کو اسرائیلی ریاست میں داخل کئے جانے کے منصوبے کے خلاف پاکستان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ 1967 میں فلسطین کی جو حدود تھیں، ان حدود کو بحال کیا جائے۔ پاکستان کی جانب سے امریکی منصوبے کی مخالفت بے شک بہت سختی کے ساتھ تو سامنے نہیں آئی لیکن وہ سعودیہ کی طرح امریکا کی مکمل حمایت میں بھی نہیں گیا۔

امریکی منصوبے پر کئی ممالک میں شدید رد عمل بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ نے بہت واضح الفاظ میں کہا ہے کہ امریکا نے 2 ریاستی فارمولا پیش کر کے عالم اسلام کی توہین کی ہے۔ بیت المقدس قبلہ اول ہے، اس پرناجائز قبضہ امن کی ضمانت نہیں بن سکتا۔ پاکستانی پارلیمنٹ موثر مشترکہ احتجاجی قرار داد منظور کرے اور فوری طور پر اوآئی سی کا سربراہی اجلاس فلسطین اور کشمیر ایشو پر بلایا جائے۔ مسئلہ تو یہی ہے کہ او آئی سی کے ہوتے ہوئے تو یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کے مسائل کے سلسلے میں او آئی سی کا کردار اس بھینس کا سا ہے جس کے آگے بین بجانے کا کوئی بھی فائدہ مسلمانوں کو نہیں پہنچ سکتا۔

اصل مسئلہ سعودی عرب کا ہے جس کا کردار کچھ یوں بن کر رہ گیا ہے کہ

مڑ مڑ کے دیکھئے کوئی رہ تو نہیں گیا

ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں کچھ قافلے کے ساتھ

بات یہی ہے کہ اسرائیل کے ارگرد پھیلے ایک ہی نسل کے بیسیوں ممالک اور کروڑوں مسلمان اگر کچھ کرنے کیلئے تیار نہیں تو پاکستان ہو یا ایران یا ترکی، وہ صرف “تلملا” تو سکتے ہیں کچھ کر نہیں سکتے، اس لئے یہ ضروری ہے کہ “جن پہ تکیہ ہے” وہی پتے ہوا دینے کی بجائے کچھ کر دکھانے کیلئے تیار ہو جائیں ورنہ آج تم کل ہماری باری ہے، والا معاملہ ہو کر نہ رہ جائے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں