اسے مکے کی ضرورت ہے

ایک درسگاہ کا بڑا ہی دردناک منظر ہے، کچھ طلبہ و طالبات نعرے لگا کر احتجاج کر رہے ہیں، بھارتی وحشی فوجی درندےان میں سے کچھ کو جانوروں کی طرح گھسیٹ کر ڈنڈوں اور رائفلوں سے بہت بےدردی سے مارتے ہیں، معلوم نہیں ان میں سے کوئی زندہ بھی بچا ہوگا یا نہیں۔

دوسرا منظر اس سے بھی زیادہ دلدوز ہے، نوجوان مسلمان لڑکی سڑک کے بیچوں بیچ بربریت کی تصویر بنی مردہ حالت میں پڑی ہے، کھلی آنکھوں کی وحشت و حسرت سمجھا رہی ہے کہ آخری لمحوں تک اس نے انتظار کیا ہوگا ان جھوٹے دعوے اور وعدے کرنے والوں کا ان بھائیوں کا جن کی غیرت وحمیت ان بدترین حالات میں بھی شاید کسی مصلحت کا شکار ہے۔

یہ اور ان جیسے سیکڑوں جگر کو پارہ کر دینے والے مناظر ، ہم آئے دن سوشل میڈیا پر وائرل ہوتا دیکھتے ہیں، جن میں کشمیری بچے ، بوڑھے، جوان اور عفت مآب خواتین بھارتی جنونیوں کی تسکین کا باعث بن رہے ہیں۔

کشمیر ہماری شہ رگ ہے ، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ کوئی جذباتی یا خالی خولی نعرہ ہے، تو وہ اپنی غلط فہمی دور کرلے کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں تقریبا 80 لاکھ مسلمان بستے ہیں ، ملت اسلامی ہونے کے ناطے وہ ہمارے بھائی ہیں ، بہتر سالوں سے ان پر زندگی تنگ ہے، ہندو سے وہ اپنے نظریے اور حق کی جنگ لڑ رہے ہیں ، روز مرتے ہیں اور پاکستانی پرچم ان کا کفن بنتا ہے ، یہ محبت کی انتہا ہے ، جو کشمیری پاکستان سے کرتے ہیں، یہ وہ وفا ہے جو 72 سالوں سے وہ پاکستان سے کرتے آرہے ہیں اور اتنے ظلم و بربریت کے بعد بھی ان کے ارادے متزلزل نظر نہیں آتے ۔

یہ تو وہ رخ ہے جو کشمیریوں کی آنکھ ہمیں دکھاتی ہے، ہمارا اپنا کردار کیا ہے؟ اس پر نظر کرنے کی ضرورت ہے عالمی دباؤ کہہ لیں یا اپنے مفادات ! مگر یہ حقیقت ہے کہ ہم کشمیر کی جنگ اب تک صرف زبان سے لڑ رہے ہیں، دلوں کو گرما دینے والی تقاریر ، آسمان کو چھوتے بلند و بانگ دعوے اور کچھ خاص دن اور موقعوں پر جلسے جلوس اور چھٹی ،یہ ہے ہماری اب تک کی کارکردگی اور پاکستانی پرچم میں لپٹے شہیدوں کی محبتوں کو خراج بس۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارا یہ رویہ ہندو بنیے مودی اور اسلام دشمن عناصر کے حوصلے مزید بلند کررہا ہے۔ ہم دنیا کی بہترین فوج اور بہترین محل وقوع رکھنے کے باوجود مرعوبیت کا شکار ہیں ، جبکہ یہ تو اسلام دشمنوں کا خاصہ ہونا چاہیے اس ڈر اورمرعوبیت کی وجہ ہمارے ایمان کی کمزوری ہے اور تمام برائیوں ، خرابیوں کی اصل جڑ یہی ہے ۔ہماری سہل پسندی نے ہماری بے حسی کو اس درجے پر پہنچا دیا ہے، کہ میڈیا پر ڈرامے کا کوئی کردار مر جائے تو لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں احتجاج کرتے ہیں۔کشمیر میں روزانہ کی بنیاد پر لوگ کٹ مررہے ہیں، زندہ جلائے جا رہے ہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسے منظر دیکھ کر کچھ لمحوں کے لیے ہمارے دلوں پر اداسی طاری ہوتی ہے، مگر اگلے ہی لمحے ہماری ساری اداسی لذت اور تفریح کے مناظر اچک لیتے ہیں، ہم فوڈ کلچر کے ستائے ہوئے لوگ ، گیمنگ زدہ نوجوان ذہن ، صرف ایک برگر ریسیپی کے عوض بھول جاتے ہیں۔ ۔ ۔ یہ ہے ہماری ایمانی کیفیت ۔

اور اگر ہم حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو بھارت پاکستان کے پانی کے تمام ذرائع جو کشمیر سے ہو کر آتے ہیں، ان پانیوں پر قبضہ کرکے پاکستان کو صحرا میں بدل کر ہمیں پانی کی بوند بوند سے ترسا کر ہماری شہ رگ کو کاٹ چکا ہے۔

کشمیر میں لوگ روزانہ کی بنیاد پر گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں پچھلے کئی مہینوں سے کرفیو کی زد میں ہیں، طبی سہولتوں سے محروم ، تعلیم سے محروم ، زندگی کی ہر ضرورت سے محروم ہیں، اللہ کے بعد زمین پر ہم ان کی واحد امید ہیں اور یہ صرف ان کی امید نہیں بلکہ اللہ کی ہمارے لئے آزمائش ہے اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ اگر کوئی آزمائش میں پورا نہ اترے تو اس کی جگہ کسی اور قوم کو دے دی جاتی ہے اور قرآن اس کا گواہ ہے۔

ہم اخلاقی نقطہ نظر سے خارجی طور پر اقوام متحدہ سمیت دنیا کی ہر فورم پر مسئلہ کشمیر اٹھا چکے ہیں اور اس کے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی دباؤ برداشت کرتے ہوئے حکومت کوئی جرات مندانہ اقدام کرے کیونکہ اب حالات اس نہج پر ہیں کہ مزید خاموشی ناصرف کشمیر بلکہ ہماری بھی جغرافیائی سالمیت کے لئے انتہائی خطرہ ہے، ہم جوعرصہ دراز سے کہتے آرہے ہیں کہ ہم کشمیر کے ساتھ کھڑے ہیں ، اب صرف کھڑے رہنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ کچھ ہاتھ پیر چلانے اور بڑا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے اس مْکّے کی ضرورت ہے جو لیاقت علی خان نے کشمیر کے مسئلے پر بھارت کو دکھایا تھا ۔

جواب چھوڑ دیں