ہمیں یقین ہوا ہم کو اعتبار آیا

کسی زمانے میں یہ گانا زباں زدِ عام ہوا کرتا تھا کہ چلو جاؤ، ہٹ جاؤ، دل کا دامن چھوڑو، تم تو پیار ہو۔ وہی باتیں اب تحریک انصاف کو ووٹ دینے والے اپنے ہی کپتان سے ہاتھ جوڑ کر کرتے نظر آ رہے ہیں کہ اللہ کے واسطے، اب ہمارا پیچھا چھوڑ بھی دیجئے، مرنا تو بر حق ہے لیکن غیروں کے ہاتھوں مر جائیں گے تو کم از کم اس بات کا غم تو نہ ہوگالیکن اگر مارا بھی اپنوں نے اور سائے میں بھی نہیں ڈالاتو افسوس ہی ہوگا۔

کہاں یہ دعوے تھے کہ ہم جیسے ہی آئیں گے ویسے ہی پاکستان کی کایا پلٹ جائے گی۔ کہاں یہ عالم کہ 16 ماہ بعد ملک کے غریبوں کو جہنم میں جھونک دینے کے بعد فرمایا جارہا ہے کہ تبدیلی آنے میں کچھ وقت لگے گا۔ “ہم جنت میں تو جانا چاہتے ہیں لیکن مرنا نہیں چاہتے”۔ میں نے ابنِ صفی کی ایک ناول میں پڑھا تھا کہ ایک خاتون خود کشی کرنا چاہتی تھیں لیکن جب ان سے کہا جاتا تھا کہ جب وہ مرنا ہی چاہتی ہیں تو مر کیوں نہیں جاتیں تو فرماتیں کہ میں مرنے کیلئے بھی دلیرانا طریقے کی تلاش میں ہوں۔ کہا آپ کسی اونچی جگہ سے کود جائیں تو فرمانے لگیں بہت تکلیف دہ موت ہوگی، کہا کہ زہر پی لیں، فرمایا کہ بزدلی کی بات ہے، کہا گولی مارلیں، فرمایا کہ خوف کی وجہ سے پستول نہیں چلا پاؤں گی۔ مختصر یہ کہ وہ مرنا بھی چاہتی تھیں لیکن بہادرانہ موت کی خواہش بھی رکھتی تھیں۔ سوال کرنے والے نے تنگ آکر خود ہی ان سے پوچھ لیا کہ آخر وہ پھر خود کیا سوچ رہی ہیں؟ جس پر انھوں نے فرمایا کہ یا تو کوئی مجھے ایسے جنگل میں چھوڑ دے جہاں شیر ہوں یا کوئی میرے ہوٹل کے کمرے میں شیر پہنچا دے۔

بے شک عمران خان کے یہ کہنے کامطلب بھی یہی ہو کہ “ہم جنت میں تو جانا چاہتے ہیں لیکن مرنا نہیں چاہتے” لوگ قربانی تو دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے لیکن خواہش یہی رکھتے ہیں کہ زندگی نہایت عیش و آرام سے گزرے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے قوم کو سب کچھ سچ سچ کیوں نہیں بتا دیا کہ جو خواب میں آپ کو دکھا رہا ہوں اور جو کچھ بھی تعبیر آپ چاہتے ہیں اس کیلئے آپ کو بہت قربانیاں دینا ہونگی۔ آپ کو گھاس کھانا ہوگی، آپ کو مال و دولت کا خسارہ اٹھانا ہوگا، آپ کو دال روٹی پر گزارا کرنا ہوگا اور جب آپ کو بھوک ستائے گی تو بھوک کے احساس کو کم کرنے کیلئے پیٹ پر پتھر بھی باندھنے ہونگے اور پھر اپنی قمیض کے دامن کو اٹھا کر قوم کو یہ کیوں نہیں دکھایا کہ دیکھو میں نے محل بیچ کر اپنا بسیرا ایک جھگی میں کر لیا ہے، سارے عیش و آرام ترک کرکے لنگوٹی باندھ لی ہے اور اے قوم یوتھ دیکھ لو میرے پیٹ پر ایک نہیں دو دو پتھر بندھے ہوئے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قوموں کو اپنا آپ بنانے کیلئے بہت قربانیاں دینا پڑ تی ہیں، جان، مال، عزت اور آبرو، سب کچھ قربان کرنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر سرخر وئی حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے سامنے چین کی پوری تاریخ موجود ہے، جو پاکستان سے بھی کہیں زیادہ ننگا بھوکا تھا لیکن آج وہ دنیا کیلئے ایک بہت بڑی مثال بناہوا ہے اور اب یہ عالم ہے کہ اس کے جاہ و جلال کے آگے امریکا جیسا ملک بھی خوف زدہ ہے۔ یہ اس لئے نہیں ہوا کہ وہاں کے رہنماؤں نے صرف قوم سے قربانیوں کا مطالبہ کیا تھا بلکہ پہلے وہ خود ایک نمونہ بنے تھے ، جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ وہ سائیکلوں پر اپنے اپنے دفاتر جایا کرتے تھے اور عام مسافر بسوں میں سفر کیا کرتے تھے۔

وزیر اعظم نے سوئیٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں ناشتے کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ “پاکستان کا بڑا چیلنج کرپشن ہے، فرسودہ نظام میں اصلاحات لانا آسان نہیں، ٹیومر کو کاٹے بغیر کینسر کا علاج ممکن نہیں ہے”۔ یہ درست ہے کہ کرپشن پاکستان کا ایک بہت سنگین مسئلہ ہے لیکن کیا ان کی حکومت سولہ ماہ میں اس میں کمی لانے میں کامیاب ہو سکی؟ عالم یہ ہے کہ وہ حکومت جس کا اعلانِ جہاد ہی کرپشن کے خلاف تھا، آنے کے بعد اس کا ختم ہوجانا تو درکنار، اس کا کم ہوجانا بھی ممکن نہ ہو سکا، بلکہ بدعنوانی پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں کرپشن بڑھ گئی ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے2019 میں دنیا کے 180 ممالک میں بدعنوانی کے تاثرکے حوالے سے سالانہ فہرست جاری کردی ہے، جس کے مطابق پاکستان کی درجہ بندی میں ایک پوائنٹ کی تنزلی ہوئی ہے۔ پاکستان میں 2018 کے مقابلے میں 2019 میں کرپشن بڑھی، 2018 کی کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان کا اسکور 33 تھاجو 2019 میں 32 ہوگیا۔ 32 اسکور حاصل کرنے پر پاکستان کا کرپشن پرسیپشن انڈیکس 3 درجے بڑھ کر 117 سے 120 ویں درجے پر چلا گیا۔ اس ادارے کی رپورٹ کو پوری دنیا سند مانتی ہے اور عالمی سطح پر اس رپورٹ کی روشنی میں بڑے بڑے اہم فیصلے کئے جاتے ہیں۔ ایک ایسی حکومت جس کا مسلسل یہ دعویٰ ہے کہ وہ ملک سے کرپشن دور کرکے ہی دم لے گی، اگر اس کے ہوتے ہوئے بھی کرپشن میں اضافے کی رپورٹ ہے تو پھر اس حکومت کیلئے اور خاص طور سے خان صاحب کیلئے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے اور انھیں اب اپنے اندر ایسی کالی بھیڑوں کو تلاش کرنا لازمی ہوگیا ہے، جو ان کے وژن کو آگے بڑھانے کی بجائے ان کی آنکھوں میں مسلسل دھول جھونکے جارہے ہیں۔

کرپشن اس وقت تک ختم ہو ہی نہیں سکتی جب تک کرپٹ افراد کو سخت سے سخت سزائیں نہ دی جائیں۔ جس چین کے نظام کا وہ بار بار حوالہ دیتے ہیں اسی چین کا ایک وفد جب پاکستان کے دورے پر تھا، تو وہ جس مقام پر مذاکرات میں مدعو تھا وہاں سخت بارش کی وجہ سے چھت ٹپک پڑی، وفد نے اس پر سخت حیرت کا اظہار کیا تو میزبانوں نے کہا کہ کیا آپ کی یہاں بارش میں چھتیں نہیں ٹپکتیں، وفد نے جواب دیا کہ اب نہیں ٹپکتیں، بیسیوں سال پہلے چھت ٹپکتی تھی تو ہم نے ٹھیکے داروں کو طلب کیا اور ان کو گولی ماردی اس کے بعد سے آج تک کبھی کسی کی کوئی چھت نہیں ٹپکی۔ مختصر بات یہی کہ جب کرپٹ افراد یا سنگین سے سنگین جرم کرنے والوں کو بھی کوئی سزا بر وقت نہیں ملے گی تو کرپشن ہی کیا، کسی بھی مجرم کی حوصلہ شکنی ہو ہی نہیں سکتی۔

دنیا کے ہر ملک میں پولیس صرف اور صرف ریاست کی وفا دار ہوا کرتی ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ پاکستان کی پولیس سیاستدانوں، مقتدر حلقوں، زمینداروں، چوہدریوں، ملکوں، وڈیروں، سرداروں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور سرداروں کے پنجہ خونی کے قبضے میں کام کرنے پر مجبور ہے۔ اس مجبوری کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی مقام پر جو پولیس اہلکار ہیں وہ ان ہی سارے بااثر افراد کے کہنے پر بھرتی کئے جاتے ہیں۔ ان ہی کی مرضی سے وہ اپنی ملازمت پر قائم رہ سکتے ہیں اور ان ہی کے کہنے پر وہ کھڑے کھڑے ملازمت سے فارغ بھی کر دیئے جاتے ہیں۔

جس ملک میں آئین و قانون کی بالا دستی نہیں ہوتی اور حکمران کی نظر میں آئین و قانون سے ان کا اپنا”فرمانا” برتر ہوا کرتا ہے، وہاں پھر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا یہ کہنا کہ “سندھ میں وہی افسر چلے گا جو نمائندوں کی پالیسی پر عمل کرے گا”، کوئی انہونی بات نہیں ہوا کرتی۔ ان کے بقول “سندھ حکومت انسپکٹر جنرل پولیس کلیم امام پر عدم اعتماد کا اظہار کرچکی ہے، اس لیے انہیں عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں”۔ وزیر اعلیٰ سندھ نہ صرف ایسا سب کچھ کہنے کا حق بھی رکھتے ہیں بلکہ وہ اس سے بھی بڑھ کر ایسے سر پھرے پولیس افسران سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین سکتے ہیں، اس لئے کہ جب کسی کو غلط بات کہنے، کسی جرم کے کر گزرنے یہاں تک کہ کسی کو قتل کردینے کے بعد بھی کسی کو قانون کے مطابق سزا نہیں ملا کرتی تو پھر ایک پولیس آفیسر کی تبدیلی ان کی مرضی و منشا کے مطابق کیوں نہیں کی جاسکتی۔

یہ ہیں وہ تما معاملات جس کو ختم کرنے کا عزم لیکر ایک حکومت آئی تھی لیکن اس کے باوجود بھی وہ ان میں ایک رتی برابر بھی کمی کرنے میں سخت ناکام ہے۔

کچھ تو وہ باتیں ہیں جن کو ختم کرنے میں واقعی ایک طویل عرصہ لگ سکتا ہے لیکن کچھ وہ باتیں بھی ہیں، جو یک جنبش قلم ختم کی جاسکتی ہیں جس میں بیجا اصراف، مہنگائی کا بڑھتا ہوا رجحان، وزرا میں دیانتداری کا فقدان اور تیز رفتاری سے قانون سازی شامل ہیں۔ اگر ان سب باتوں پر عمل کیا جاتا تو موجودہ حکومت کیلئے سولہ ماہ بہت تھے۔ جب آرمی چیف کی مدت ملازمت کے قانون میں چند دنوں کے اندر اندر ترمیم عمل میں آ سکتی ہے، تو کرپٹ لوگوں کو بنا مقدمہ بنائے سر عام گولیاں کیوں نہیں ماری جاسکتیں۔ لیکن یہ سب اس وقت تک ممکن نہیں جب تک قانون بنانے والے اور ان پر عمل درآمد کرانے والے خود پاک صاف نہیں ہونگے۔ لہٰذا خان صاحب اور ان کی حکومت کو گڑ کھانا چھوڑنا پڑے گا ورنہ ساری قوم ہاتھ جوڑ کر ان سے یہی عرض کر رہی ہو گی کہ!

خدا کے واسطے جھوٹی نہ کھائیے قسمیں

ہمیں یقین ہوا ہم کو اعتبار آیا

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں