بین الشخصی تعلقات اور اساتذہ کردار

دوسری اور آخری قسط

تعلیمی عمل میں استاد، طالب علم تعلقات کی اہمیت؛۔

                                 یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ فی زمانہ درس و تدریس اور تعلیم کے وسیع ذرائع سے استاد اور شاگرد کے باہمی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔طلبہ کی ذہن سازی، اکتسابی آمادگی ، سیکھنے کی ترغیب و تحریک کا راست تعلق استاد اور طالب علم کے درمیان پائے جانے والے تعلقات پر مبنی ہوتا ہے۔بیشتر اساتذہ درس و تدریس میں یدی طولیٰ اور کمال رکھنے کے باوجود درس وتدریس میں طلبہ سے کم آمیزی یامحدود ربط و تعامل کی وجہ سے اکثر ناکام ہوجاتے ہیں۔ان حقائق کی روشنی میں یہ بات وضاحت کے ساتھ ابھر کر سامنے آتی ہے کہ درس و تدریس اور تعلیم و تعلم میں اساتذہ اور طلبہ کے تعلقات اساسی نوعیت کے ہوتے ہیں، جنہیں ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔اساتذہ کے طلبہ سے صحت مند اور مثبت تعلقات و روابط جہاں اکتسابی فضا کو متاثر کرتے ہیں، وہیں اساتذہ کا مشفق اور فکرمند رویہ طلبہ میں اکتساب کوپروان چڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔

پہلی قسط پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کیجئے: بین الشخصی تعلقات اور اساتذہ کا کردار ( پہلی قسط)

اساتذہ طلبہ کو ان کی تعلیم ،زندگی،نشوونما اور نتائج کے بارے میں اپنی فکر مندی سے واقف کرنے میں اگر کامیاب ہوجاتے ہیں، تب ازخود طلبہ میں تعلیم سے ر غبت اور دلچسپی پیدا ہونے لگتی ہے اور وہ دل سے استاد کی عظمت و احترام کے قائل ہوجاتے ہیں۔

ڈاکٹرا سپرنگر (Dr.Springar)کے مطابق ’’تعلیمی نظام سے وابستہ مختلف عناصر اساتذہ اور طلبہ کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ تعلیمی عمل سے گزر کر نہ صرف اپنی ذات و صفات سے روشناس ہوتے ہیں بلکہ معاشرہ شناس بن کر حقیقت شناسی کے مرحلے سے بھی سرفراز ہوجاتے ہیں۔‘‘ بنیادی طور پرتعلیمی نظام استاد اور شاگرد کے باہمی رشتے کے بغیرنا مکمل رہتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ تعلیم ،استاد اور طالب علم سبھی معاشرے کا ایک اٹوٹ حصہ ہیں اور ان سبھی کا خمیر بھی معاشرے سے ہی اٹھا ہے۔

اساتذہ اور طلبہ کے مابین پائے جانے والے تعلقات مثالی معاشرے کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔دنیا کا کوئی بھی معاشرہ استاد اور شاگرد کے درمیان بہتر و مثالی تعلقات کو استوار کئے بغیر ترقی و استحکام سے کبھی ہمکنار نہیں ہوسکتا۔معلم و متعلم کا رشتہ درس و تدریس ،کمرہ جماعت یا امتحانات تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ ایک مثالی استاد اپنے طلبہ کو خودشناسی کے جوہر سے آراستہ کرتے ہوئے ،خودشناسی کے عمل سے گزار کر انھیں معاشرے کا ایک مفید، کارآمد،خود شناس ،حقیقت پسند شہری بناتا ہے اور جو حیات و کائنات کے تمام مسائل سے آگاہی رکھتاہے۔استاد کاطلبہ سے بہتر رویہ و تعلق ان کو خود شناس و خود بین بنادیتا ہے ۔ خود شناسی خدا شناسی تک پہنچنے کا زینہ ہوتی ہے۔ یہ ہی وہ وصف ہے جو تعلیم کا جوہرخاص کہلاتاہے جسے ہم کلی تعلیم(Holistic Education) سے تعبیر کرتے ہیں۔

تعلیم صرف علوم و فنون سکھانے،معلومات کی نقل وترسیل اور کام کرنے کی صلاحیت سے لیس کرنے کا نام نہیںبلکہ آدمی کو انسان بنانے کا کام ہے۔

جین میڈک (Jean Medick)کے مطابق’’طلبہ کو ادراج کی مہارتیں سکھانا ہی کافی نہیں ہوتا ، بلکہ اساتذہ پر یہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ طلبہ کو ایک مکمل انسان بننے کی راہ پر گامزن کریں اور زندگی کے سفر میں کامیابی و کامرانی فراہم کرنے والے عناصر سے ان کا مکمل تعارف کروائیں۔

(Teaching congitive skills is not engough. A teacher has a moral obligation to help children to grow towards becoming full human beings and to feel successful.Jean Medick)

اساتذہ طلبہ سے ایک جذباتی اور گوناں گو وابستگی جیسے ان کے بارے میں اظہار ہمددری و فکرمندی کے ذریعے ان میںفکری،معاشرتی،جذباتی اور جسمانی نشوونما کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ ذیل میں چند تجاویزات پیش کرنے کا مقصد ایسے طریقوں اور حکمت عملیوں سے اساتذہ کو واقف کروانا ہے، جن پر عمل پیرا ہوکر وہ بہتر درس و تدریس کے فرائض ، فعال کارکردگی، فعالیت کے لئے درکار موثر و صحت مند ماحول کی تشکیل اور طلبہ سے مثبت تعلقات و روابط کو ہموارکر سکتے ہیں۔

(1) طلبہ جب بھی استادسے بات کرنا چاہیں تب انھیں وقت دیا جائے او راستاد حد درجہ صبر و تحمل سے کام لیں۔جب وہ گفتگو کریں تب اپنی سماعت کی بہتر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان میں یہ احساس پیدا کریں کہ وہ ان کی رائے اور تاثرات کی بہت قدر کرتے ہیں۔

(2) طلبہ جب جذباتی ہیجان اور اکتسابی معذوریوں اور مشکلات سے دوچار رہوتے ہیں اور ان سے نبر دآزمائی کے لئے جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں، تب اساتذہ ان سے شائستگی اور رواداری سے پیش آئیں۔رہنمائی کے فرائض احسن طریقے سے انجام دیں۔اپنے لب و لہجے اور الفاظ سے ان میں خوداعتمادی پیداکریں ۔اساتذہ طلبہ کی تئیں اپنی فکر مندی سے ان میں خود اعتمادی پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔

(3) اساتذہ تمام ممکن طریقوں کو بروئے کارلائیں اورکوئی ایسا موقع نہ گنوائیں جو طلبہ کی صلاحیتوں اور خصوصی مہارتوں کو استوار کرنے میں مددگار اور حوصلہ افزا ہو۔طلبہ کے اعتماد کو استحکام اور کردار کو مضبوطی فراہم کرنے میں اساتذہ کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات اساتذہ کی عزت و احترام میں گوناگوں اٖضافے کا باعث ہوتے ہیں۔

(4) طلبہ کو چند ذمہ داریاں تفویض کرتے ہوئے ان میں اعتماد کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ اساتذہ کی جانب سے کئے جانے والے یہ اقدامات طلبہ میں نہ صرف خوداعتمادی کوپروان چڑھاتے ہیں، بلکہ استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی مضبوط ہوجاتا ہے۔ ایک دوسرے سے قربت پیدا ہوتی ہے ۔اساتذہ اور شاگردوں کے مابین بہتر تعلقات استوار کرنے میں یہ بہت ہی کارگر اور مثبت پہلو ہے۔

(5) اساتذہ اپنے مصروف تدریسی سرگرمیوں اور اسکولی پروگرامس سے خاص طور پر وقت نکال کر طلبہ سے انفرادی گفتگو شنید کا اہتمام کریں، ان کی دلچسپیوں، اہداف اور عزائم دریافت کریں اور ایک مربی اور رہنما کے فرائض انجام دے۔

(6) اساتذہ کمرہ جماعت کی بات چیت اور سرگرمیوں کے دوران درآنے والے تخلیقی نظریات،احساسات،مختلف،خیالات اور جذبات کو خاص اہمیت و جگہ دیں ۔ استاد کا اس طرح کا اقدام طلبہ میں یہ احساس پیدا کرنے میں معاون ہوتا ہے کہ استاد ان کے نتائج اور نظریات کی قدر کرتا ہے۔

(7) اسکول کے مختلف پروگرامس اور سرگرمیوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل آوری کے سلسلے میںطلبہ کا تعاون اور صلح و مشورہ حاصل کریں ۔طلبہ سے باہمی با ت چیت مشاورت اور ا ن کی معاونت سے منصوبہ بندی اور سرگرمیوں پر عمل پیرائی سے اساتذہ او ر طلبہ کے تعلقات وروابط کی نئی راہیں نکلتی ہیں۔

(8) طلبہ کے جذبات اورخوداعتمادی کو مجروح کرنے والی تکلیف دہ اور ٖحوصلہ شکن باتوں اور اعمال سے اساتذہ کو اجتناب کرنا چاہئے۔کسی ایک یا چند ایک طلبہ کی غلطی اور شرارت کی سزا اساتذہ طلبہ کے تمام گروپ یا تمام جماعت کو نہ دیں۔

(9) یہ ایک حقیقت ہے کہ طلبہ میں تامل میل (میل جول/ایڈجسمنٹ) کے مسائل،جذباتی شکستگی(جذباتی تکلیف)،احساس تنہائی اورتنائو کے وقت جب اساتذہ ان کی مدد کرتے ہیں تب ان کے لئے طلبہ کا پیار اور احترام کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

(10) اساتذہ طلبہ سے باہمی گفتگو کا اہتمام کریں،انھیں یہ احساس دلائیں کہ وہ ان کی ترقی کے خواہاں اور فکر مند ہیں۔ طلبہ کی کوشش و کاوششوں کی ستائش کریں ان کی حوصلہ افزائی کریں۔

(11) اساتذہ طلبہ کو عمدہ عادات اور انھیں اپنانے کے کارگر طریقوں سے واقف کروائیں۔ زندگی میں کردار اور نظم و ضبط کی اہمیت سے روشناس کریں۔شخصیت کی تعمیرو نشوونمامیں معاون نکات ومشورے دیں۔ منظم انداز سے پڑھائی کرنے کے اصول و ضوابط اور طریقہ کار کے علاوہ عمدہ برتائو کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کریں۔

قومی زندگی کی تشکیل ،تعمیر ،ترقی اور خوش حالی کا انحصار استاد اور شاگرد (ان دونوں مرکزی کردار) کے تعلقات پر ہوتا ہے۔قیادت و سیادت کی اساس اخلاق ہوتاہے۔اس کے زوال سے اچھے قائدین اور عمدہ قائدانہ خصائل میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اسی لئے استاد اور طلبہ کا تعلق کاروباری اساس پر نہیں بلکہ کلی طور پر سماجی روحانی اور اخلاقی بنیادوں پر استوارہوناچاہئے۔طلبہ کی روحانی ،اخلاقی،سماجی اور نفسیاتی تربیت کا مقصدان میں قائدانہ صلاحیتوں کی تعمیروتشکیل اور فروغ ہوتا ہے، تاکہ وہ بہتر طور پر مستقبل میں ملک و قوم کی قیادت کی ذمہ داری سنبھالنے کے لائق ہوجائیں۔

یہ استاد کا فرض منصبی ہے کہ وہ طلبہ کو ز ندگی کے درپیش مسائل اور ان کے ممکنہ حل سے واقف کروائیں ۔یہ تب ہی ممکن ہے جب استاد طلبہ کی پوشیدہ صلاحیتوں کو دریافت کرتے ہوئے انھیں پروان چڑھائے۔ استاد طلبہ کی سیرت و کردار کی تعمیر اچھائی اور سچائی کے خطوط پر اس طرح انجام دیں کہ وہ عملی زندگی میںان محاسن کو اپنی زندگی کا جزو بنالیں۔طلبہ اقدار پر مبنی زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے استاد کی تربیت کا حق ادا کرتے ہیں۔اساتذہ کے لئے طلبہ کی اخلاقی ،جسمانی ،روحانی ،جذباتی بلکہ کلی تربیت کا فریضہ انجام دینا اسی وقت ممکن ہے جب استاد اور شاگرد کے بیچ عزت و احترام اور محبت و مودت کا رشتہ قائم ہو۔

مختصراً کہا جاسکتا ہے کہ تدریسی عمل میں استاد اورطلبہ کے درمیان تعلقات اگر خوشگوار اور مثالی نہ ہوں تب صحت مند معاشرے کا ظہور تقریباً ناممکن ہی ہے کیونکہ عمومی تعلیمی عمل کی کلید اور محور طلبہ اور اساتذہ ہی ہوتے ہیں، جب تک ان کے مابین خوشگوار تعلقات نہیں ہوں گے تب تک بہتر اور خوشگوار تعلیمی عمل کا فقدان ہی رہے گا۔ تعلیمی اداروں کو ایسی سرگرمیوں کی جانب توجہ کرنی چاہئے جن سے طلبہ اور اساتذہ کے تعلقات مستحکم اور خوشگوار ہوسکیں۔

عالمی سطح پر یہ شعو رپیدا ہوا ہے کہ دیگر تمام پیشوں کی طرح تدریسی پیشے کا بھی اپنا ایک ضابطہ اخلاق ہونا چاہئے، جو اس کے وقار اور سالمیت کی برقراری کے لئے درکار ہے۔ اسی تناظر میں بچوں کا آزادانہ اورحق لازمی تعلیم ایکٹ 2009 ،(RTE2009)،اساتذہ کو چند انتہائی پیشہ وارانہ ذمہ داریا ںتفویض کرتا ہے، جس کی روشنی میں وہ اپنی ذمہ داریوں کی بہترطریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔اساتذہ کے لئےپیشہ وارانہ ضابطہ اخلاق طلبہ، والدین اپنے ملازم ساتھیوں اور کمیونٹی کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کونبھانے میں ایک لائحہ عمل(Frame Work)فراہم کرتا ہے۔درس و تدریس سے متعلق اصولوں اور شعور وآگہی میں اضافے کے باعث اساتذہ میں پیشہ وارانہ مہارتوں کو فروغ دینا بے حد ضروری ہے۔

نیشنل کونسل فار ٹیچر ایجوکیشن (این سی ٹی ای NCTE,) نے اسکول اساتذہ کے لئے ایک ضابطہ برائے پروفیشنل ایتھکس(پیشہ وارانہ ضابطہ اخلاق) تیار کیا ہے، جس میں اصولوں کا ایک فریم ورک(ڈھانچہ) مہیا کیا گیا ہے جو اساتذہ کو طلبہ ، والدین اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں رہنمائی کرتا ہے۔

1۔ طلبہ کے تئیں فرائض (Obligation Towards Students) ۔

2۔ والدین،برادری اور سماج کے تئیں فرائض (Obligations Towards Parents,Community and Society)

3۔ اپنے پیشے اور ساتھی ملازمین کے تئیں فرائض (Obligations Towards Profession and Colleagues)

1۔ طلبہ کے تئیں اساتذہ کے فرائض

1.1۔ تمام طلبہ کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آنا(Treat all students with love and affection)

1.2 ۔ تمام طلبہ سے ان کی ذات،نسل،مذہب،جنس،معاشی حیثیت،معذوری،زبان،اور مقام پیدائش سے قطع نظر احترام، انصاف پسندی اور غیر جانب داری سے پیش آنا۔ (Respects the value of being just and impartial to all students irrespective of their caste,creed,religion,sex,economic status,disability,language and place of Birth)

1.3۔ طلبہ کی جسمانی،سماجی،فکری،جذباتی اور اخلاقی نشوونما میں سہولت و مدد فراہم کرنا۔

1.4۔ اسکولی زندگی کے تمام پہلوئوں میں بچے کی بنیادی انسانی عظمت و وقار(Human Dignity) کا احترام کرنا۔

1.5۔ طلبہ کی استعدا د و صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور حقیقی صورت گری دینے کے لئے منصوبہ بندی اور منظم سعی و کاوش سے کام لینا۔

1.6۔ آئین میں درج اقدار کے مطابق نصاب کی تدریس کی انجام دہی۔

1.7۔ طلبہ کی انفرادی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے طریقہ تدریس کا انتخاب و استعمال۔

1.8۔ طلبہ سے متعلق معلومات کو صیغہ راز میں رکھنا اور ان معلومات کو صرف ارباب مجاز وذمہ داران تک ہی پہنچانا۔

1.9۔ کسی بھی بچے کو خوف،صدمہ واضطراب سے دوچارکرنے سے مکمل اجتناب کرنا اورجسمانی اذیت،جنسی استحصا ل اور ذہنی و جذباتی ہراسانی سے مکمل اجتناب وگریز کرنا۔

1.10۔ بحیثیت رول ماڈل اور ایک استاد سے متوقع وقار و متانت کے برتائو کا اظہار۔

2۔ والدین،برادری اور سماج کے تئیں فرائض (Obligations Towards Parents,Community and Society)

2.1۔ طلبہ کی ہمہ جہت ترقی کی خاطر والدین اورذمہ داران طلبہ کے ساتھ اعتماد پر مبنی تعلقات استوارکرنا۔

2.2 ایسے تمام افعال سے اجتناب کریں جس سے طلبہ ،اولیائے/سرپرست طلبہ کی توہین ہوتی ہے یا وہ ان کی عزت کے مغائر ہو۔

2.3۔ ملک کی مخلوط (گنگا جمنی )ثقافت و تہذیب سے الفت و احترام پیدا کرنے کی سعی و کوشش کرنا۔

2.4۔ ملک کو سب سے زیادہ اولیت و فوقیت دینا اور ایسی تما م سرگرمیوں میں حصہ لینے سے گریز کرنا جس سے مختلف برادریوں ،مذہنی لسانی گروہوں کے درمیان نفرت و دشمنی کے جذبات پیدا ہوسکتے ہیں یا پھیل سکتے ہیں۔

3 ۔ اپنے پیشے اور ساتھی ملازمین کے تئیں فرائض (Obligations Towards Profession and Colleagues)؛۔

3.1۔ اپنی پیشہ ورانہ ترقی کے لئے جہد مسلسل کرنا۔

3.2۔ ایسی تہذیب و ثقافت کو تشکیل دینا جو اپنے ساتھی ملازمین اور دیگر شراکت داروں(Stake holders) کے مابین بامقصد تعاون و اشتراک اور مکالمے (بات چیت) کی حوصلہ افزائی کرنا۔

3.3۔ پیشہ تدریس پر احساس تفاخر کا اظہار کرنا اور اپنے دیگر ہم منصب افراد کے ساتھ عزت ،وقار اور احترام سے پیش آنا۔

3.4۔ پرائیویٹ تدریسی سرگرمیوں اور پرائیوٹ ٹیوشن وغیرہ سے اجتناب کرنا۔

3.5۔ پیشہ وارنہ فیصلوں ،افعال و اعمال پر اثرانداز ہونے والے تحفے تحائف و التفات سے اجتناب کرنا۔

3.6۔ ہم منصب رفقا یا اعلی عہدے داروں کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی سے پرہیز کرنا۔طلبہ،اساتذہ،افسران اور والدین کی موجودگی میں ہم منصبوںکے خلاف غیر مناسب بیانات سے گریز۔اپنے ہم منصبوں کے پیشہ ورانہ موقف کا احترام۔

تعلیمی اداروں میںطلبہ اور اساتذہ کے تعلقات کی نوعیت آج اس طرح نہیں دکھائیی دیتی ہے جس کا ہمارا معاشرہ،مذہب اور تعلیمی عمل متقاضی ہے۔استاد طلبہ سے اپنی عزت واحترام بچانے میں سرگرداں نظر آرہے ہیں۔استاد اور طلبہ کے درمیان احترام کی جو ایک لکیر تھی، طلبہ اسے بھی عبور کر تے ہوئے خوش گواری کے بجائے بے تکلفی یارانہ ماحول اور خوش گپیوں میں بدل چکے ہیں۔مار نہیں پیار کے نعرے نے ادب واحترام کے تعلقات کو بڑی حد تک تباہ کردیا ہے۔

اساتذہ اور طلبہ کے درمیان پیدا ہونے اور مسلسل وسیع ہوتی اس خلیج کی وجوہات پر غوروفکر کرنے کی سخت ضرورت ہے۔استاد کا یہ فرض منصبی ہے کہ وہ طلبہ سے شخصی تعلق و علاقہ رکھے۔ طلبہ کے طور طریقوں،مزاج ،چال چلن اور دماغی صلاحیتوں سے آگہی ؛پید اکرے ان کے والدین سے راہ و رسم رکھے اور طلبہ کے متعلق اطلاعات ان تک پہنچائے۔یہ کام محنت شاقہ کا طلب گار ہے لیکن اس کے بڑے اخروی انعامات بھی ہیں۔استاد کا کام صرف اسباق و کتاب کی تدریس نہیں ہے بلکہ استاد بچوں کو زندگی پڑھاتا اور سکھاتا ہے۔ہماراتعلیمی نظام مغرب کی اندھی تقلید کے باعث مجروح ہوا ہے۔اندھی مغرب پرستی نے بچوں میں اپنی مثالیت پرستی (ہیروازم) کو ختم کردیا ہے۔

آج بچوں کے ہیرو خالدبن ولید،محمد بن قاسم،موسیٰ بن نصیر اور طارق بن زیادہ جنھوں نے اپنے عزم مصم ،فولادی ارادوں اور قائدانہ صلاحیتوں سے تاریخ کا رخ بدل دیاتھا وہ نہیں رہے، بلکہ ان کی جگہ فلم اسٹارس ،کمپیوٹر اور دیگر گیمس کے کردار وں نے لے لی ہے جن کا دور دور تک حقیقت اور حقیقی دنیا سے واسطہ نہیںہے ۔محکمہ تعلیم کے ارباب مجاز ، اولیائے طلبہ و سرپرست حضرات اپنے مثبت کردار کے ذریعے استاد اور طلبہ کے درمیان تعلقات کی بڑھتی ہوئی اس خلیج پر نہ صرف کامیابی سے قابو پاسکتے ہیں بلکہ مثالی طلبہ کی تیاری میں اساتذہ کا تعاون کرسکتے ہیں۔اساتذہ بھی اپنے شاگردوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھیں اور اگر ان سے کوئی نامناسب حرکت سرزد بھی ہوجائے تو عفو ودرگزر سے کام لیں اور وقار و بردباری سے پیش آئیں۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں