دوٹکے کی حکومت

گزشتہ کئی روز سے مارکیٹ سے سو دا سلف لا نے کی ذمے داری مجھ پر آئی ہوئی ہے اورکئی دنوں سے ہر دکاندار سے اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ آیا جب حکومت نے نرخ مقرر کردیے ہیں تو پھر اس نرخ پر مطلوبہ اشیاء کیوں فراہم نہیں کی جارہی؟ انڈے، دودھ، آٹا، گوشت سمیت تمام اشیاء خورد ونوش کی قیمتیں من مانے نرخ پر فروخت کیے جارہے ہیںاور اس ضمن میں کسی دکاندار سے باز پرس کی جائے تو آگے سے ایک ہی جواب ملتا ہے ، جہاں سے اس ریٹ پر ملتا ہے وہاں سے لے لو۔ ہمارے پاس اسی ریٹ پر دستیاب ہے، لینا ہے تو لو ، ورنہ راستہ ناپو۔

بعض دکاندا رکی بدتمیزی انتہا کو چھو رہی ہوتی ہے ،گزشتہ روز ایک مرغی گوشت فروش سے اسی بات پر تکرار ہوئی کہ سرکاری نرخ 225روپے فی کلو ہے تو آپ کس طرح 290روپے فی کلو بیچ رہے ہیں؟ اورپھر یہ سرکاری نرخ نامہ کیوں آویزاں کیا ہواہے ،اسے پھاڑ کر پھینک دیں۔ جس پر دکاندار نے انتہائی بے تکا سا جواب دیا کہ یہ دوٹکے کی حکومت کے لیے لگا یا ہے۔ آپ کو 225روپے فی کلو گوشت چاہیے ؟ورنہ جس نے نرخ جاری کیے ہیں اسی کے پاس چلے جائیں۔ ہمارے پاس اس نرخ پر دستیاب نہیں۔ یہی حال تمام دکانداروں کا ہے، سب نے سرکاری نرخ نامہ تو آویزاں کیا ہوا ہے، مگر وہ صرف دوٹکے کی حکومت کو دکھاوے کے لیے ہے ،اصل نرخ تو کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔

مہنگائی نے جہاں متوسط طبقے کی کمر توڑ دی ہے ، وہیں غریب کا حال بے حال ہوچکا ہے۔ دو وقت کی روٹی کے لیے 18،18گھنٹے کی سخت محنت مشقت کرنے کے باوجود یہ دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے میسر ہوپارہی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے گزشتہ روز ریلوے کے حوالے سے ریمارکس دیے کہ ملک میں سب سے بڑا نااہل ادارہ ہے۔ لیکن چیف جسٹس آف پاکستان کو شاید یہ بات معلوم ہی نہیں کہ ملک میں تمام ادارے نااہل ہیں ،جس میں عدلیہ بھی شمار ہوتی ہے،جہاں سے لوگوں کو انصاف کی فراہمی کی ذرہ برابر بھی امید نظرنہیں آتی، کورٹ کے باہر سے ہی لوٹ مار شروع ہوجاتی ہے اورجج کے چیمبر تک پہنچتے پہنچتے انسان اپنی تمام ترجمع پونجی لوٹا چکا ہوتا ہے اورجب انصاف کا وقت آتا ہے تو وہ لوگ جیت جاتے ہیں جن کے پاس پیسا ہوتا ہے۔

درسی کتابوں میں سچائی پر جس طرح زور دیاجاتا ہے اگر حقیقت میں بھی اس پر ذرہ برابر بھی دھیان دیاجائے تو آج غریب خودکشی پر مجبور نہ ہوں۔ اسکولوں میں تعلیم کے معیار سے لے کر عدالت میں انصاف تک کے مراحل میں سچائی کو جھوٹ میں تبدیل کرنے کا ہنر بکتا ہے۔رہی سہی کسر ہماری اسمبلیاں پوری کردیتی ہیں،اپنے مطلب کے تمام بل راتوں رات بن بھی جاتے ہیں اورمنظور بھی ہوجاتے ہیں ،مگر عوام کے لیے اگر کوئی بل خدانخواستہ اسمبلی تک پہنچ بھی جائے تو اسے منظور ہونے میں بھی دس سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ آج جس طرح عام دکاندار شہریوں سے لوٹ مار میں مصروف ہیں اور سرکار کو دوٹکے کی حکومت کہنے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھاجاتا ، وہاں تعلیم ، انصاف اورحکمرانوں کو زمین میں دفن کردینے کو دل چاہتا ہے۔

عمران خان صاحب دو لاکھ روپے تنخواہ میں گزارہ نہیں کرپارہے ہیں اور غریب کو کہتے ہیں ہمت سے کام لیں،مشکل وقت ہے جلد گزرجائے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے مشکل وقت گزرے نہ گزرے لیکن غریب ضرورگزر جائیں گے۔

صوبائی حکومتیں اپنی اپنی حکومتیں بچانے میں مصروف عمل ہیں ،کہیں آئی جی انا کا مسئلہ بنا ہوا ہے، تو کہیں آٹا بحران کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈالی جارہی ہے۔ اشیائے خورد ونوش کے نرخ مقرر کرنا وفاق کا کام نہیں بلکہ سندھ حکومت اوربلدیات کا کام ہے ،جو اس میں مکمل طورپر ناکام نظرآرہی ہے۔ ڈپٹی کمشنر کو بااختیار تو بنادیاگیا ہے مگر انہیں سیاسی مفاہمت کی رسی سے اس طرح باندھا گیا ہے کہ وہ اپنے ٹھنڈے کمرے سے صرف اس وقت نکلتے ہیں جب اوپر سے آرڈر ملتا ہے۔ یا پھر انہیں صرف پولیو کے معاملات میں الجھا کر رکھ دیاگیا ہے۔ باقی تمام معاملات میں ڈپٹی کمشنرز کی کہیں نہیں سنی جاتی۔ ایک عام دکاندار بھی انہیں باآسانی دھوکا دے دیتا ہے اوریہ پڑھے لکھے بے وقوف سمجھتے ہیں ہم نے عوام کی بھلائی کیلیے اچھا کام کردیا۔ یا پھر یوں کہیے کہ ان دکانداروں کے ذریعے اوران کے پیچھے ذخیرہ اندوزوں کی ملی بھگت سے ان پڑھے لکھے کمشنرز کی روزی روٹی بندھی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکا دکا کارروائی کرکے واپس ٹھنڈے کمروں میں پہنچ جاتے ہیں ۔

سرکاری نرخ نامہ ایک طرف رکھتے ہوئے اگر بات چارجڈ پارکنگ پر کی جائے تو یہاں بھی لوٹ مار کا دھندہ عروج پر پہنچا ہوا ہے۔ مین شاہرائوں پر بنائی گئیں چارجڈ پارکنگ غیر قانونی ہیں ،لیکن یہ عرصہ دراز سے چل رہی ہیں جن کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ایمپریس مارکیٹ ،صدر ریگل چوک،موبائل مارکیٹ،گل پلازہ ،کینٹ اسٹیشن ،تین تلوار،دوتلوارسمیت شہر بھر میں جگہ جگہ چارجڈپارکنگ مافیا کا قبضہ ہے،لیکن ان کے خلاف لوکل گورنمنٹ نے اب تک کوئی کارروائی نہیں کی،جس کی وجہ افسران بالا کو ملنے والا بھاری نذرانہ ہے ۔ شاہ لطیف ٹائون میں فلائی اوور کے نیچے بنائی گئی چارجڈپارکنگ غیر قانونی ہے، جس کا ثبوت اس بات سے لگائیں کہ کے ایم سی کے ڈائریکٹر خالق بلوچ کے مطابق انہوںنے اس کی اجازت نہیں دی اور تھانے میں جمع کرایاجانے والا لیٹر بھی جعلی ہے ،تاہم چیف جسٹس آف پاکستان اور متعلقہ اداروں کو یہ کہانیاں نظرنہیں آتیں۔

کراچی میں ہر طرح کی مافیاموجود ہے، جنہوںنے اس شہر میں اپنے پنجے گاڑ کر حکومتی اداروں کو مفلوج کررکھا ہے ،ادارے ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کرتے ہیں، کیوں کہ ان کے تعلقات اوپر تک ہیں اور جب وہ چاہتے ہیں اپنی مرضی کا افسر لگادیتے ہیں اوراپنے دشمن آفیسر کو معطل کرواکر اپنا رعب ودبدبہ برقراررکھتے ہیں۔ یہ نظام کی ناکامی ہے جسے بدلنا حکومت کے بس کا روگ نہیں۔ اس لیے مرغی فروش کی بات درست ہے کہ دوٹکے کی حکومت ہماراکچھ نہیں بگاڑ سکتی۔قانون صرف دکھاوے کے لیے ہے، درحقیقت قانون ان کی مرضی کا محتاج ہے۔

کراچی دنیا کا واحد مظلوم شہر ہے، جہاں حکومت طاقت کے لیے بنائی جاتی ہے اور آئین اس طاقت کو تحفظ دے کر مزید مضبوط بنادیتا ہے۔ اس شہر ناتواں پر ہر طرح کے بااثراورطاقت ورلوگو ں کاراج ہے، جن کے آگے جہاں کراچی والے بے بس ہیں وہیں قانون بھی اندھا ہوجاتا ہے۔ کے الیکٹرک ہو یاواٹربورڈ،ڈی ایم سی ہو یا کے ایم سی ،سندھ سرکار ہو یا پھر وفاق،یہاں سب نے اپنے اپنے طاقت ورلوگوں کو بٹھا رکھا ہے ، جو دن رات کراچی والوں کاخون چوس کر انہیں خودکشی پر مجبور کررہے ہیں ،اورقانون ان تمام لوگوں کو ریلیف پر ریلیف دینے میں مصروف ہے ،جہاں غریب کی داد رسی کی کوئی امید اب باقی نہیں رہی۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں