ہم کیوں نہیں کر سکتے

بوٹسوانا جنوبی افریقہ کے وسط میں واقع ایک چھوٹا ملک ہے۔ یہ جنوبی افریقہ ، نامبیا ، زمبیا اور زمبابوے کے درمیان واقع ہے ۔1966 میں جب بوٹسوانا نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی اُس وقت یہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں شامل تھا۔ آزادی کے وقت جی ڈی پی کے حساب سے فی کس 70 امریکی ڈالر تھا۔ ملک چلانے کے لیے سرکاری اخراجات کا ساٹھ فیصد بیرونی ترقیاتی امداد سے پورا ہوتا تھا ۔

پسماندگی کا اندازا آپ اس بات سے لگا لیں کہ 1966 میں پورے ملک میں 12 کلو میٹر پکی سڑک تھی۔ لیکن کچھ عرصے میں ہی بوٹسوانا پوری دنیا میں تیز ترین ترقی کی کہانی بن گیا۔اور اس کا میابی کے پیچھے صرف ایک شخص تھا، اُن کا نام تھا سر یٹس خامہ جو 1921 میں بوٹسوانا میں ہی پیدا ہوئے۔ سریٹس خامہ نے 1965میں بیجوانا لینڈ ڈیمو کریٹک کے نام سے پارٹی بنائی اور الیکشن میں کامیابی حاصل کر کے وزیراعظم بن گئے۔وزیراعظم بننے کے بعد ایک سال میں برطانیہ سے آزادی حاصل کر لی۔ آزادی کے بعد سریٹس خامہ ملک کے پہلے صدر بنے اور 1980 میں اپنی موت تک ملک کے صدر رہے ، صدر خامہ کو ملنے والا ملک مسائل سے دوچار افر یقہ کا غریب ترین ملک تھا، لیکن اس سب کے باوجود خامہ نے آس پاس والی انگریزوں کی ریاستوں کے ماتحت جانے سے انکار کر دیا یہ وہ دور تھا، جب افریقہ میں خانہ جنگی عروج پر تھی، لیکن صدر خامہ نے اس سب سے بوٹسوانا کو دور رکھا اور معاشی ترقی پر توجہ دینی شروع کی، بہت جلد خامہ نے سمجھ لیا تھا کہ بوٹسوانا قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے، ضرورت ہے تو ؔصرف اُن تمام ذخائر کو مناسب طریقے سے استعمال کرنے کی، بوٹسوانا میں پہلی بار ہیروں کی دریافت 1967 میں ہوئی اور 1990 تک بوٹسوانا دنیا میں ہیروں کی پیداوار میں پہلے نمبر پر تھا اور پھر اُنھوں نے بوٹسوانا اور اُس میں رہنے والے لوگوں کی تقدیر بدل کے رکھ دی۔ اُن کے دور میں بوٹسوانا دنیا میں سب سے زیادہ اور تیز ترقی کرنے والا ملک تھا۔

ورلڈ بینک کے مطابق 1965 سے 1999 تک بوٹسوانا فی کس آمدنی میں ترقی کرنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر تھا، آپ اُن کی ترقی کا اندازا اس بات سے بھی لگا لیں کہ بوٹسوا نا مسلسل 15 سال تک سائوتھ افریقہ ترقیاتی کانفرس کی سربراہی کرتا رہا ہے ۔

اب ہم ان سب کا موازنہ پاکستان سے کرتے ہیں، ہم بوٹسوا نا سے 19 سال پہلے آزاد ہوا تھا ، آزادی کے وقت ہماری معاشی حیثیت بھی اُن سے بہت بہتر تھی اور قدرتی وسائل سے ہم بھی مالا مال ہیں، لیکن ہم ترقی نہیں کر سکے اُس کی سب سے بڑی وجہ وہ جونکیں ہیں، جو ہمارے ملک کو چوس رہی ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک ارسطو آتا ہے، عوام کو بتاتا ہے کہ سارے مسا ئل کی وجہ اُن سے پہلے آنے والے لوگ تھے اور یہ آ کر ملک کی تقدیر بدل کر رکھ دیں گے، پھر یہ بھی جھوٹے وعدے اور جھوٹی تسلیاں دے کر چلے جاتے ہیں لیکن ملک پیچھے سے پیچھے جاتا جا رہا ہے ۔

وزیراعظم عمران خان صاحب پاکستان قدرتی وسائل سے بھرا پڑا ہے ، پاکستان میں دو بڑے قدرتی وسائل ریکو ڈیک اور تھر میں ہیں ۔ ریکو ڈیک ایران اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد کے قریب ہے۔ ماہرین کے مطابق صرف ریکو ڈیک کے مقام پر 3 کھرب امریکی ڈالر مالیت کےسونے اور تا نبےکےذخائرموجودہیں اسکے علاو ہ کچھ ماہرین کاخیال ہےکےریکوڈیک کے زمین میں وہ عناصرموجودہیںجو سونےسے کہیںزیادہ قیمتی ہیںیہ عناصرجدیدترین ہائی ٹیک لاتااورتمام الیکٹرک کاروں کی بیٹریوںمیںاستعمال ہوتےہیںاو ر ان کی پوری دنیامیں95فیصدسپلائی چین کے پاس ہے۔ تھرمیںبے شمارکوئلےکےذخائرہیںماہرین کے مطابق تھر میں180 بلین ٹن کوئلہ دستیاب ہےلیکن پاکستان کےقدرتی وسائل ٹھیک طریقےسےدریافت نہیں کیےجاسکےماہرین کےمطابق پاکستان نےابھی تک صرف20 فیصد کی کھوج لگائی ہے۔ باقی اندازہ آپ خودلگالیںکےاللہ پاک کاکتناکرم ہے ہم پرلیکن ہم اپنےحالات کوبدلناہی نہیںچاہتے۔

جواب چھوڑ دیں