نوول کرونا وائرس کے خلاف چینی سماج کا اتحاد

عالمی سطح پر صحت کے اعتبار سے اس وقت اگر کسی موضوع کی بات کی جائے تو فوری طور پر ذہن میں نوول کرونا وائرس آتا ہے۔چین کے شہر ووہان سے جنم لینے والا یہ مہلک وائرس اب تک  سو سے زائد جانیں لے چکا ہے ،جبکہ وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بھی  مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے اور ابتک کے اعداد و شمار کے مطابق ساڑھے چار ہزار سے زائد افراد نوول کرونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔

اس صورتحال میں بطور صحافی چین کے دارالحکومت بیجنگ میں قیام کے دوران نوول کرونا وائرس کو شکست دینے کے لیے چینی سماج کے جذبے اور جدوجہد سے متعلق کئی واقعات نظر سے گزر رہے ہیں۔انفرادی اور اجتماعی رویوں میں وہ عزم جھلکتا ہے جو کسی بھی آزمائش کا ڈٹ کر سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔

  چین میں نوول کرونا وائرس ایسے وقت میں سامنے آیا جب چینی عوام نیا قمری سال اور جشن بہار کی خوشیاں اپنے پیاروں کے ساتھ منانے کی تیاریاں کر رہے تھے، مگر صورتحال یکسربدل چکی ہے۔جشن بہار کے موقع پر کروڑوں افراد اپنے آبائی علاقوں کا رخ کرتے ہیں، لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا۔چینی لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کرونا وائرس سے خود کو اور دیگر لوگوں کو بچانے کی خاطر سفر سے گریز کیا جائے لہذا دنیا کی سب سے بڑی سفری سرگرمی متاثر ہوئی۔

چینی حکومت کی جانب سے نوول کرونا وائرس کے مزید پھیلاؤ اور روک تھام کی خاطر ووہان شہر جانے والے فضائی اور زمینی راستے عارضی طور پر بند کر دیے گئے اور اس وقت ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد آبادی کا حامل یہ شہر ” تنہا جزیرے” میں تو  ضرور رتبدیل ہوا لیکن چینی عوام بالخصوص ووہان کے شہری اس عارضی بندش کو وبائی صورتحال پر قابو پانے کے لیے ایک “حفاظتی جزیرے” سے تعبیر کر رہے ہیں، جس کا مقصد عالمی سطح پر صحت عامہ کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔

نوول کرونا وائرس  کے پیش نظرجشن بہار کی مناسبت سے منعقد کی جانے والی تمام عوامی سرگرمیاں منسوخ کر دی گئی ، عوامی اجتماعات  کا انعقاد نہیں کیا جا رہا ہے۔چینی عوام انفرادی سطح پر تمام حفاظتی اقدامات پر عمل پیرا ہیں ، گھروں سے باہر نکلتے وقت ماسک کا استعمال لازم ہے، دفاتر  ، بس اڈوں ،ریلوے اسٹیشنز،ہوائی اڈوں  یا دیگر عوامی مقامات پر تمام افراد کے جسمانی درجہ حرارت کی جانچ کے لیے عملہ موجود ہے ،عوام صحت و صفائی سے متعلق تمام ہدایات پر عمل پیرا ہیں۔چینی حکومت نےہمیشہ  کی طرح عوامی مفادات کو ترجیح دی ہے اور وبا کی روک تھام اور کنٹرول کے لیے فوری طور پر ایک قومی نظام تشکیل دیتے ہوئے موثر اقدامات کیے ہیں ۔چین کشادگی ، شفافیت اور سائنٹیفیک تعاون کے جذبے کے تحت بین الاقوامی برادری کے ساتھ انتہائی ذمہ دارانہ انداز میں تعاون اور بر وقت معلومات کا تبادلہ کر رہا ہے تاکہ مریضوں کے علاج اور وبائی امراض کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے مربوط اقدامات کیے جائیں۔

چینی عوام کا جذبہ بھی اس وقت عروج پر ہے ، بالخصوص شعبہ طب سے وابستہ افراد اپنی تعطیلات کو منسوخ کرتے ہوئے چین بھر سے ووہان شہر کا رخ کر رہے ہیں۔اس وقت چین کے مختلف شہروں سے چھ ہزار سے زائد طبی کارکن ووہان پہنچ چکے ہیں جہاں وہ پہلے سے فعال دیگر طبی عملے کو  تعاون اور معاونت فراہم کر رہے ہیں۔

چین میں صحت عامہ اور عوامی خدمات کی فراہمی کے سبھی ادارے چوبیس گھنٹے فعال ہیں۔ماسک ساز ادارے دن رات مصروف ہیں جبکہ ماسک سمیت طبی آلات اور دیگر ضروریات زندگی کی ترسیل کے لیے محکمہ ڈاک کا عملہ بھی ہمہ وقت مصروف عمل ہے۔

چین کے صدر شی جن پھنگ نے نوول کرونا وائرس کے خلاف فتح کو  “عوامی کردار” سے مشروط کیا ہے ، جبکہ اُن کی جانب سے محکمہ صحت سمیت تمام متعلقہ اداروں کو واضح ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ مفاد عامہ کو ترجیح دی جائے اور وائرس کی روک تھام اور اس پر قابو پانے کے عمل میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔

ووہان شہر میں پاکستانی طلباء سمیت دیگر کمیونٹی کی تعداد پانچ سو زائد ہے۔اکثریتی طلباء تعطیلات کے باعث پاکستان میں اپنے آبائی علاقوں میں موجود ہیں اور جو اس وقت شہر میں موجود ہیں اُن کے حوصلے بھی بلند ہیں۔پاکستانی سفارتخانہ ووہان شہر میں جامعات کی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے  اور یہ امر باعث اطمینان ہے کہ چین میں اب تک کسی بھی پاکستانی فرد کے نوول کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔

چین میں قیام پذیر سبھی پاکستانیوں کے دل اپنے چینی بہن بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور سب دعا گو ہیں کہ صورتحال میں بہتری آئے اور معمولات زندگی بحال ہو سکیں۔

جواب چھوڑ دیں