ہمارا ذرائع ابلاغ قرآن کے پس منظر میں

جب انسان اپنی ذات کے لیے جیتا ہے تو زندگی اسے مختصر اور حقیر لگتی ہے اور اسی کو بہتر بنانے کی حرص کے علاوہ اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا، آجکل کا ہمارا دجالی میڈیا صرف انفرادی زندگی کو اہمیت دیتا ہے “جیسے چاہو جیو . . . . . جیو اور جینے دو . . . . . کھا لے پی لے جی لے . . . میرا جسم میری مرضی . ..”

مگر جب انسان دوسروں کے لیے یا کسی مقصد کے لیے جیتا ہے تو اس کی زندگی میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے زندگی برسوں کی گنتی کا نام نہیں بلکہ یہ انسان کے احساسات و جذبات سے عبارت ہے ، یہ شعور اگر چھین لیا جائے تو انسان زندگی سے محروم ہو جاتا ہے۔

اسی لئے اللہ تعا لیٰ نے یہ قرآن حضور کے قلب مبارک پر نازل فرمایا تاکہ اسکے ذریعے وہ ایک امت برپا کرے اور ایسی مملکت وجود میں آئے جہاں لوگوں کے ضمیر و اخلاق سنوارے جائیں اور انکی عقلی تربیت کی جائے۔ قرآن پوری امت کو ایک مضبوط رسی سے باندھ کر اللہ کی بادشاہت کو تسلیم کرواتا ہے اور ایک مثالی اسلامی معاشرہ قائم کرتا ہے جس کی روح عقیدہ توحید پر ہو اور قانون اللہ کا!! امت مسلمہ کو کیسا ہونا چاہیے؟ عبادات کیسے کرنی چاہئیں؟ کونسی کھانے کی چیزیں حرام ہیں؟ کن عورتوں سے نکاح حرام ہے؟ قانون سازی کا حق صرف اس رب کائنات کا ہے جس نے یہ بنائی اس پر دست درازی کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے سورۃمائدہ کی آیت ہے کہ!

ترجمہ: آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے “

گویا رب کریم نے ہدایت وروشنی کا یہ سلسلہ نبی آخر الزمان کو قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے دے دیا، اللہ تعالی نے یہ اعلان کر دیا کہ تمہارا نظریہ حیات مکمل ہو گیا، نہ اس میں کوئی نقص ہے اور نہ کوئی کمی ہے اور اسکی قدریں فطری ہیں، اگر کوئی شخص یا نظام یہ دعوٰی کرتا ہے کہ یہ نظریہ حیات جدید دور سے متصادم ہے تو وہ رب العزت کے حقوق پر دست درازی کرتا ہے۔

پھر غور و فکر کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے کہ یہ ایک عظیم اور بھاری نعمت ہے جو اللہ تعالی نے پوری کر دی انسان اسوقت تک انسان نہیں کہلاتا جب تک اس کائنات کی حقیقت اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کی نظر سے نہ دیکھے۔

عرب معاشرہ جب جاہلیت کی پستی میں ڈوبا ہوا تھا، تب اللہ نے اسی منہاج کے ذریعے اس کو پستیوں سے نکالا۔ بےشک رسول اللہؐ کی پیشگوئی پوری ہو گئی کہ “آخری زمانے میں دین پھر اجنبی ہو جائے گا”۔

بےحیائی کا فتنہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے وہ بھی پورا ہو چکا۔ اب ہمارے معاشرے میں کسی کی جان مال آبرو محفوظ نہیں، جب عرب معاشرہ دور جاہلیت کا غبار جھاڑ کر اٹھا تھاتو ان لوگوں کے ذہنوں میں یہ احساس تازہ تھا کہ انکو اسلام کے ذریعے نیا جنم ملا ہے انکو گہرا احساس و شعور تھا کہ ان میں ایک عظیم انقلاب آگیا ہے ۔

اسلامی نظام حیات پر مکمل عمل درآمد کرنا بہت اہم ہے، چاہے وہ پاکیزہ کھانے ہوں یا پاکیزہ بیویاں۔ جسمانی پاکیزگی کے ساتھ روحانی پاکیزگی کیلئے نماز کے اہتمام کا کہا گیا ہے، جس سے مومن کی روح تک سرشار ہو جاتی ہے، الغرض انسانی زندگی میں پاکیزگی کے تمام رنگ جمع ہو گئے ہیں اور اسلامی نظام زندگی کی تصویر اب مکمل ہو گئی ہے۔ جس میں مراسم عبودیت اور نظام قانون میں ایک حسین ہم آہنگی ہے ، یہ ایک عام نظام ہے، ز جو ہر دور اور ہر سوسائٹی کے لئے قابل عمل ہے یہ میثاق “سمعنا و اطعنا” یعنی ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی؛ دراصل وہ نعمت ہے، جس پر مومن فخر کرتا ہے کیونکہ اس معاہدے کا ایک فریق وہ خود اور دوسرا رب کائنات ہے، پھر ہے واتقو اللہ اس لیے اللہ سے ڈرو؛ اور عدل کرو چاہے اسکی ضرب تمہاری اپنی ذات پر کیوں نہ پڑے؟ یہ وہ معاہدے ہیں جو ہم نے اللہ کے ساتھ کیے ہیں۔ان فرائض میں سے کسی ایک کی خلاف ورزی معاہدہ ایمان کی خلاف ورزی ہے۔ میں یہاں یہ کہہ کر ختم کرتی ہوں کہ میرے رب کی باتیں ختم نہ ہو ںگی، چاہے ایک سمندر اور سیاہی بن جائے اور سارے درخت قلم بن جائیں۔

11 تبصرے

جواب چھوڑ دیں