بس میرے کپتان بس

کہتے ہیں اس وقت سے ڈروجب کوئی غریب اورمظلوم بھوک،افلاس اورفقروفاقے کی وجہ سے آنکھوں میں اشک لئے آسمان کی طرف دیکھے۔آج ظالم حکمرانوں اوربدمست سیاستدانوں کے دھتکارے اورمایوس ایک دونہیں لاکھوں اورکروڑوں غریب آنکھوں میں اشک، دلوں میں فریاداورزبانوں پرآہ وبکالیکرآسمان کی جانب دیکھ رہے ہیں مگرکسی کو کوئی پرواہ نہیں ۔
اللہ ظالموں کوڈھیل ضروردیتے ہیں لیکن جب وہ خدا ڈھیل کی رسی کوتھوڑاسابھی کھینچتے ہیں توپھرسابق وزیراعظم نوازشریف جیسے طاقت ورحکمران اورسیاستدان بھی لمحوں میں منہ کے بل اقتدارسے زمین پرگرجاتے ہیں ۔اقتدارکے نشے میں مدہوش موجودہ حکمران توویسے بھی تنکے کے سہارے پرکھڑے ہیں، ان کے مقابلے میں تو سابق وزیراعظم نوازشریف بہت مضبوط اورطاقت ورتھے ۔اللہ کی بے آوازلاٹھی سے اگرتین باروزیراعظم بننے والے نوازشریف نہیں بچے تویہ تنکوں کے سہاروں پرناچنے والے پھر کس کھیت اورکس باغ کی مولی ہیں کہ یہ بچ جائیں گے۔۔؟
وزیراعظم عمران خان نے جب سادہ لوح عوام کو ” ریاست مدینہ “ کی شہریت دینے کے خواب اورسپنے دکھانے شروع کئے توبہت سے لوگوں نے نہ صرف عمران خان کی ان باتوں اورسپنوں پرتیروں کی بارش کی بلکہ انہیں برابھلابھی کہالیکن ہم۔۔؟ ہم نے وزیراعظم کی ایمانداری اورسچائی پرشک اورکوئی انگلی اٹھانے کی بجائے یہ سوچ کر صرف اس لئے ان جھوٹی باتوں، خوابوں اورسپنوں کی کھل کرحمایت کی کہ اگریہ ملک مدینے جیسی ریاست بن جائے تواس سے اور اچھی بات کیاہوگی۔۔؟ ” ریاست مدینہ “ کانام توویسے بھی زبان پرآکردل باغ باغ ہوتاہے۔ وہ ریاست مدینہ جہاں کوئی انسان کیا۔۔؟ کوئی جانور بھی نہ کبھی بھوکارہااورنہ ننگا۔امیروغریب میں تفریق تودور۔” ریاست مدینہ “ کے توحکمران بھی عام رعایاکے برابرہوتے تھے۔ وہاں توانسانوں میں بھی کوئی تفریق کبھی کسی نے نہیں دیکھی۔ ”ریاست مدینہ “ میں مسلمان کیاکہ غیرمسلموں کوبھی ان کے پورے کے پورے حقوق ملے۔ انصاف کاتووہاں یہ عالم تھاکہ مجرم اورگناہ گارکے طورپراگرکوئی اپناسامنے ہوتاتودوسروں سے پہلے اس کےہاتھ کاٹےجاتےیاسرتن سےجداکیاجاتا۔سود،ٹک ٹاک،لوٹ مار، آٹاچوری، گرانفروشی اورذخیرہ اندوزی کاتووہاں نام ونشان بھی نہیں تھا۔
وہاں حکمران بنی گالہ اوررائیونڈجیسی محلات میں خراٹے نہ مارتے بلکہ لوگ راتوں کو چین اورسکون کی نیندسوتے اورحکمران گلی محلوں میںپہرے دیتے۔اسی وجہ سے چودہ سوسال گزرنے کے بعدآج بھی دنیاریاست مدینہ کی مثالیں دے رہی ہیں ۔اسی ریاست مدینہ کوسامنے رکھتے ہوئے ہم نے سوچاکہ وزیراعظم عمران خان جوریاست مدینہ ،، ریاست مدینہ کہہ کرنہیں تھکتے اگریہ ملک میں ” ریاست مدینہ “ کے طرزکی چنداصلاحات بھی لے آئیں تواس سے اس ملک اورقوم کی یہ ڈوبتی کشتی پارہوجائے گی، مگرافسوس وزیراعظم عمران خان جن کی حکمرانی کوڈیڑھ سال کاعرصہ گزرچکا۔ ان ڈیڑھ سال میں وزیراعظم عمران خان ، ان کے رفقاء ،وزیروں اورمشیروں نے ابھی تک کوئی ایک بھی ایساکام نہیں کیا، جو ” ریاست مدینہ “ سے مطابقت رکھتاہو۔

ریاست مدینہ میں توسب سے پہلے دولت اوروسائل کی منصفانہ تقسیم کرکے امتیازی سلوک کوختم کردیاگیاتھا، لیکن وزیراعظم عمران خان نے توبڑے بڑے مگرمچھوں، چوروں اورلٹیروں کواپنی کابینہ میں شامل کرکے ان کوغریبوں کی خون کمائی سے تجوریاں بھرنے کامزیدموقع فراہم کیا۔” ریاست مدینہ “ میں کوئی سودکانام بھی نہیں لے سکتاتھا، مگرملک کو” ریاست مدینہ “ بنانے والے عمران خان نے توملک سے سودختم کرنے کی بجائے اس کی شرح میں مزیداضافہ کرکے حج جیسے اہم اسلامی فریضے کوبھی اس سے رنگ دیا۔ ریاست مدینہ میں حکمرانوں کی لاکھوں اورمزدوروں کی ہزاروں کی تنخواہ نہیں تھی۔ وہاں توجب خلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی تنخواہ مقررکرنے کی بات کی گئی توخلیفہ اول نے نوازشریف،عمران خان اورآصف زرداری کی طرح یہ نہیں کہاکہ میری تنخواہ لاکھوں اورکروڑوں میں مقررکردوبلکہ مسلمانوں کے اس عظیم خلیفہ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے توصحابہ کی جانب سے اپنی تنخواہ زیادہ رکھنے کے اصرارپربھی یہ فرمایاکہ میری تنخواہ ایک مزدورکی اجرت کے برابر مقررکرلو۔ اگراس میں میراگزارانہ ہواتومیں سمجھ جائوں گاکہ اس اجرت میں ایک مزدورکابھی گزارانہیں ہوتاپھرمیں اپنی تنخواہ بھی بڑھادوںگااورمزدورکی اجرت بھی۔
ملک کو” ریاست مدینہ “ بنانے والے عمران خان آج بجائے اپنی تنخواہ ایک مزدورکی اجرت جتنی کرنے یاایک مزدورکی اجرت اپنی تنخواہ کے برابرکرنے کے یہ رونارورہے ہیں کہ اس تنخواہ میں میراگزارانہیں ہوتا۔ وزیراعظم صاحب آپ نے کبھی ایک منٹ کے لئے یہ سوچنے کی زحمت گواراکی کہ دولاکھ میں اگرآپ کاگزارانہیں ہوتاتوپھراس ملک میں دس اوربیس ہزارماہانہ کمانے والے غریب مزدوروں،ریڑھی بانوںاورسبزی فروشوں کادس اوربیس ہزارمیںکیسے گزاراہوگا۔۔؟ حریم زادیوں پرمرنے اوردولت کوایمان سمجھنے والوں کوساتھ ملانے سے مادرپدرآزادریاست تووجودمیں آسکتی ہے، مگر” ریاست مدینہ “ کبھی نہیں۔
ملک کو” ریاست مدینہ “ بنانے کے لئے دوسروں کے نہیں بلکہ اپنے پیٹ پرپتھرباندھنے پڑتے ہیں، مگریہاں تومعاملہ ہی الٹ ہے۔ حکمران کمرتوڑمہنگائی ،غربت اوربیروزگاری کی صورت میں غریبوں کے پیٹ پرتوپتھرباندھ رہے ہیں، پراپنے پیٹ پربھوک کی تپش لگنے کے لئے بھی تیارنہیں ۔ غریبوں کی غربت اورمظلوموں کی مظلومیت کامذاق اڑانے والے بھی بھلاقوم کے کوئی نمائندے، وزیر، مشیریاخیرخواہ ہوتے ہیں ؟ایسوں کوتودنیامسخروں کانام دیتی ہے اوریہ مسخرے اللہ کے فضل وکرم سے اس جدید” ریاست مدینہ “ کے امیرالمومنین کے اردگرداوردائیں وبائیں کچھ کم نہیں ۔مسخروں سے بھی بڑھ کرمسخرے جس کے دست وبازوہوں ایسے عظیم انسان پھرکوئی مسخرستان توبناسکتے ہیں لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ کوئی نیاپاکستان اور” ریاست مدینہ “ نہیں ۔
” ریاست مدینہ “ بنانے کے لئے جہاں سودخوروں کے پرکاٹنے ہوں گے ، وہیں قوم کوبھوک وافلاس میں دھکیلنے والے آٹاوچینی چوروں، ذخیرہ اندوزوں،گرانفروشوں اوررشوت خوروں کوبائولے کتوں کے آگے بھی ڈالناہوگا۔ کراچی سے گلگت اورکاغان سے چترال تک لوگ مہنگائی، مہنگائی وآٹاآٹاکررہے ہیں اورحکمران سنگ مرمرسے بنے محلات میں بیٹھ کرانہیں برگراورکیک کھانے کے مشورے دے رہے ہیں۔ ظالم حکمرانوں نے غریبوں پریہ زمین تنگ کردی ہے۔ ملک کاہرشخص ایک ایک وقت کی روٹی کے لئے تڑپ اورترس رہاہے۔ غریبوں کاتوجیناہی محال ہوگیاہے، مگروزیراعظم سمیت کسی کواس کی کوئی پرواہ نہیں۔ کفرکانظام توچل سکتاہے مگرظلم کاکبھی بھی نہیں ۔ اپنی عیاشیوں اورسیاسی بدمعاشیوں کے لئے غریبوں کے منہ سے روٹی کاآخری نوالہ چھیننے والے اللہ کے قہروعذاب سے کبھی بچ نہیں سکیں گے۔ وزرات عظمیٰ کی نرم وملائم کرسی میں کیل ٹھونک کربیٹھنے والے نوازشریف اگرمکافات عمل سے نہیں بچے توسادہ لوح عوام کو” ریاست مدینہ “ کے جھوٹے خواب اورسپنے دکھانے والے یہ مسخرے کیسے بچ پائیں گے ۔ ؟
وزیراعظم صاحب آپ کی ایمانداری پرہمیں آج بھی شک نہیں، لیکن چوروں اورلٹیروں کی یہ سہولت کاری ہمیں کیا۔۔؟ آپ کے نظریاتی اورآپ پرجان نچھاورکرنے والے کھلاڑیوں کوبھی ہضم نہیں ہورہی۔
میرے کپتان بہت ہوگیا!خداراراب ان چوروں،سودخوروں اورآٹاوشوگرمافیاکے چنگل سے نکل آئیں۔ اگر آپ واقعی اس ملک کوریاست مدینہ بنانے چاہتے ہیںتواس نیک کام میں ہم آج بھی آپ کے ساتھ ہیں ، لیکن اگرسابق حکمرانوں کی طرح آپ بھی اس بھولی بھالی قوم کو جھوٹے خواب اورسپنے دکھاکر ٹائم پاس کرناچاہتے ہیں ، توپھرایک مہربانی کرکے ” ریاست مدینہ “ والانعرہ اورسپنادرمیان سے نکال کرکسی اورسپنے اورخواب پرٹائم پاس کریں۔ اس سے پہلے بھی اس قوم کوبہت سے خواب اورسپنے دکھاکربہلایاگیااب اگرآپ بھی کوئی نیاسپنااورخواب دکھاکران کوبہلادیں تویہ کوئی بڑی بات نہیں ہوگی، لیکن ریاست مدینہ کے نام پرخواب اورسپنایاٹائم پاس بہت بڑاظلم ہوگا، جس پرپھرتاریخ بھی آپ کوکبھی معاف نہیں کرے گی۔

جواب چھوڑ دیں