معصوم بچی کی خواہش

آجکل نہ جانے کیوں مجھے قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال، لیاقت علی خان اور چودھری رحمت علی بے حد یاد آرہے ہیں ۔

تقریباً روز ہی نگاہوں کے سامنے کوئی نہ کوئی خبر ایسی آموجود ہوتی ہے کہ دل سہم جاتا ہے، آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور سر باعث ندامت جھک جاتا ہے ۔

واللہ اعلم محرکین پاکستان وطن عزیز کے حالاتِ زار پر افسردہ ہوں یا انگشت ۔

کیا انہوں نے کروڑوں درماندہ مسلمانوں کے خوابوں کو اپنے لہو سے سینچ کر اس لئے حقیقت کا روپ دیا تھا کہ مملکت خداداد کے باسیوں کے خوابوں کی دھجیاں روز بکھرتی رہیں؟

آج کل یہ خبر زبان زد عام ہے کہ شہر کراچی میں ایک معصوم بچے نے سردی سے بچنے کے لئے اپنے باپ سے سوئٹر کی فرمائش کی اور بے بس اور لاچار باپ نے یہ ننھی خواہشیں پوری نہ کرنے کے باعث اپنے آپ کو پٹرول چھڑک کر آگ لگا لی ۔

اس معصوم بچے نے سوئٹر کی تمنا کرکے آخر ایسا کونسا سنگین گناہ کر دیا؟ کہ جس کی پاداش میں اسے اپنے باپ کی ٹھنڈی چھاؤں سے محروم ہونا پڑا،اس کانازک جسم سرد موسم کے ٹھنڈے تھپڑوں کی طاقت نہ لا سکتا ہو گا اس کی نگاہیں دوسرے بچوں کے زیب تن کئے گرم ملبوسات کے گرد طواف کیا کرتی ہوں گی، اور اس کی ہڈیاں اور دل نرم نرم گرماہٹ کی حصول کیلئے مچلتا ہوگا تبھی اس کی ننھی منی زبان سے معصوم سی خواہش نکلی بابا مجھے سوئٹر چاہیے۔

مگر یہی وہ الفاظ ہیں جو ایک بے بس اور لاچار باپ کی محبت بھرے دل ستم قاتل ثابت ہوئے اور اس نے موت کو گلے لگا لیا ۔

اسے موت کی آغوش سے نکال کر کر امید کا سورج دکھانے والا تو کوئی نہ تھا، مگر اس کی موت کے بعد اس کے کنبہ کو گھر بھی دیا جا رہا ہے، پیسوں سے بھی نوازا جارہا ہے اور سمان زندگی بھی عطا کئے جارہے ہیں ، مگر یہ سب کچھ دیکھنے کے لیےاس گھر کا سربراہ موجود نہیں ہے، قسمت آج بھی شہر میں بسنے والے لاتعداد معصوم جسم سوئٹر سے محروم ہیں، اب کوئی بچہ اپنی لبوں سے اس خواہش کا اظہار کرنے کی جرات کر سکے گا کہ بابا مجھے سوئٹر چاہیے؟۔

جواب چھوڑ دیں