کسانوں پر نئی آفت ’’ٹڈی دَل ‘‘

ٹڈی دَل کا نام آتے ہی سب سے پہلا خیال جو ذہن میں آتا ہے وہ یہی ہے کہ یہ وہی ٹڈی ہوگی جو کپڑے ٹک دیتی ہے، خراب کردیتی ہے۔ شاید یہ بھی اسی ٹڈی کی قسم ہو لیکن جس ٹڈی نے کا آج کل ایران افغانستان اور ہمارے بلوچستان اور پنجاب میں حملہ کیا ہے یہ کپڑوں والی ٹڈی سے جسامت میں بھی بڑی ہے اور اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے تو آئیے اس کے بارے میں کچھ جانتے ہیں یہ سر سبز فصلوں کو کھا جاتی ہے بلکہ خراب کردیتی ہے۔

صحرائی ٹڈی زیادہ خطرناک ہوتی ہے صحرائی ٹڈی ایک انگلی کے برابر لمبی اور موٹی ہوتی ہے اور یہ اپنے وزن سے چار گنا زیادہ کھا سکتی ہے اور ٹڈی کو دل اس لیے کہتے ہیں کہ وہ گروہ یا جھنڈ کی صورت میں حملہ آور ہوتی ہے اسی لیے اسے ٹڈی دل یعنی ٹڈیوں کی فوج کہتے ہیں۔ اور اس کا جھنڈ یا گروہ ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں ہوتا ہے اور کم ازکم ایک آدھ کلومیٹر کا ایریا کور کرتا ہے اور اس ایریا میں آنے والی فصلیں حتیٰ کہ درختوں کے پتے تک کھا جاتے ہیں ہری بھری فصلیں منٹوں میں چٹیل میدان نظر آنے لگتے ہیں۔

سننے میں آیا ہے کہ ٹڈی حلال ہے اسے کھایا بھی جاتا ہے، عرب ممالک، افغانستان، بلوچستان اور مظفر گڑھ والی سائیڈ پر لوگ بڑے شوق سے تل کر کھاتے ہیں، جسے مہنگے داموں فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ ٹڈی شور سے ڈرتی ہے اسی لیے مختلف اضلاع میں نوٹیفکیشن جاری کیے گئے ہیں کہ جس کھیت میں بھی ٹڈی نظر آئے وہاں ڈھول پیٹے جائیں برتن بجائے جائیں یا موٹر سائیکل کا سائلنسر نکال کر شور کیا جائے تاکہ ٹڈی کو بھگایا جاسکے اور وہاں پر موجود محکمہ کو بھی مطلع کیا جائے تاکہ ا سپرے وغیرہ کا بندوبست بھی کیا جاسکے۔

شور کرنے سے یہ بھاگ جاتی ہے، لیکن آپ کتنا بھگائیں گے ؟ کتنی دیر تک شور مچائیں گے؟ یہ آپ کا کھیت چھوڑ دے گی تو کسی دوسرے کھیت میں جا بیٹھے گی۔ لیکن یہ مستقل حل نہیں ہے اس کا مستقل حل اس کے انڈوں اور ان کی تلفی ہے اب مسئلہ یہ ہے ٹڈی کمال ہوشیاری سے ریت کی تہہ میں کم و بیش چار انچ نیچے جاکر انڈے دیتی ہے اور ایک ٹڈی کم ازکم ستر سے اسی انڈے دیتی ہے، جنہیں تلف کرنا ایک گھمبیر مسئلہ ہے جسکے لیے بہت زیادہ سرمایہ بھی درکار ہے۔

اس کا تدارک کرنے والے محکمہ کے پاس ا سپرے کرنے کے لیے جہاز ہوتے تھے ، سنا ہے کہ وہ اب آدھے سے زیادہ خراب ہوگئے ہیں اور کثیر سرمائے کا مسئلہ بھی درپیش ہے بہرحال یہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے، جس کی طرف حکومتی عہدیداران اور متعلقہ محکمہ کو خصوصی توجہ دینی چاہیے چاہے اس کے لیے فوج یا دیگر دوست ممالک سے مدد طلب کرنا پڑے تاکہ جلد ازجلد اس کا سدباب کیا جاسکے آج کل کھاد، بیج، ڈیزل اور اسپرے اتنی مہنگی ہے کہ کسان کا پہلے ہی کچومر نکلا ہوا ہے اور اوپر سے ٹڈی دل کی آفت نے کسانوں کا جینا حرام کردیا ہے، درد دل رکھنے والے مخیر حضرات بھی اس آفت سے نمٹنے کے لیے اپنی خدمات پیش کریں تاکہ کروڑوں اربوں روپے کے نقصان سے بچا جاسکے۔

جواب چھوڑ دیں