پنجاب میں بڑی ہلچل

نیا پنڈورا باکس یہ کھل رہا ہے، پنجاب میں فارورڈ بلاک کے پیچھے وسیم اکرم پلس کا ہاتھ ہے، بزدار صاحب کی چپکے سے کاروائیں جاری ہیں۔ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔عجیب سی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ اچانک اپنی پارٹی سے نا صرف آوازیں آنا شروع ہوئیں بلکہ راتوں رات فاروڈ بلاک بھی سامنا آگیا۔جس کا کسی کو اندازہ بھی نہیں تھا۔اور بظاہر کوئی سمجھ بھی نہیں آرہی کہ اس فارورڈ بلاک کے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا۔ہر طرف گہرائی سے نظریں دوڑائی جا رہی ہیں اور اپوزیشن پر شکوک وشبہات کیے جا رہے ہیں۔لیکن وہاں پر بھی یقین نہیں آرہا۔

عثمان بزدار صاحب سے وزیراعظم فون پر رپورٹ طلب کرتے ہیں۔کہ یہ کونسا گروپ ہے اور ان کی کون سر براہی کر رہا ہے؟ کون ہو سکتا ہے جو ان لوگوں کو ہماری پارٹی سے توڑنے کی کوشش کر رہا ہے؟ ادھر سے وزیر اعلیٰ صاحب بڑے احترام سے جواب دیتے ہیں، سر ہمیں بھی سمجھ نہیں آرہی۔ وزیراعظم صاحب حکم صادر کرتے ہیں کہ ان لوگوں سے فوراً رابطہ کریں اور انھیں اپنے اعتماد میں لے کر مجھے ابھی رپورٹ کریں۔ وزیراعظم صاحب کو یہ سمجھ نہیں وزیراعلی صاحب سے اختیارات چھین لیے۔جو کہ موجودہ صورتحال سے خود نالاں ہے وہ دیگر پارٹی رہنماؤں کو وہ کیسے اعتماد میں لائے بلکہ جن کی قیادت اندر اندر سے وہ خود کر رہا ہے۔ کئی بار اظہار بھی کر چکا ہے۔پارٹی رہنما فنڈ چاہتے ہیں جن پر حلقے کی عوام کا سخت دباؤ ہے فنڈز ان کو مل نہیں رہے اور انفرادی کام بھی ان کے نہیں ہو رہے۔مجھے مخصوص اختیارات تک محدود کر دیا گیا ہے۔ میں بھی ان کو یقین نہیں دلا سکتا کہ آپ کے کام ہو جائیں گے۔یاد رہے اس معاملے سے صرف ایک ہفتہ پہلے ق لیگ نے بھی اسی بات کا اظہار کرتے ہوئے عثمان بزدار کی حمایت میں عمران خان پر پریشر ڈالنے کی کوشش کی۔

بلکہ ان کے ایک وزیر طارق بشیر چیمہ نے کھل کر کہا پنجاب کو اسلام آباد سے نہ چلایا جائے۔مطلب تمام تر اختیارات بزدار سرکار کے حوالے کیے جائیں۔اور مونس الہی بھی بزدار صاحب کی حمایت میں بول پڑے اور یہ بھی کہا بزدار صاحب کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ اس کے بعد مزید پریشر بڑھانے کے لیے بزدار صاحب نے یہ فاروڈ بلاک والا فارمولا متعارف کروا دیا۔ معاملہ کچھ یوں ہے عمران خان نے تقریبا ڈیڑھ ماہ پہلے جو چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل آف پولیس تبدیل کیے ان کو مکمل اختیارات دے کر بزدار صاحب سے آزاد کرا دیا۔ اور ساتھ یہ بھی ہدایات جاری کر دیں کہ جو میں کہوں اس کے علاوہ آپ نے کسی وزیر اور دوسری قیادت سے کوئی رہنمائی نہیں لینی۔ کسی بھی سیاسی رہنما کی کوئی مداخلت برداشت نہیں کرنی۔ خان صاحب کو اپنے اس اقدام کے بعد یہ معلوم نہیں تھا اس سے پنجاب میں سیاسی سطح پربڑا بھونچال آ سکتا ہے۔ اس کے بعد چیف سیکرٹری عثمان بزدار کو کوئی توجہ نہیں دے رہے تھے اور دوسری قیادت کے ساتھ بھی ایسا رویہ اپنایا ہوا تھا۔ بلکہ چند دن پہلے گورنر پنجاب چوہدری سرور نے بھی میڈیا پر کہا کہ بیوروکریسی میری بات بھی نہیں سنتی۔ وہ اپنے دوستوں کے کہنے پر کام کر دیتے ہیں لیکن ہماری بات نہیں سنتے نہ ہی ہمارے ارکان پارلیمنٹ کی بات سنتے ہیں۔ اسی پر پی ٹی آئی قیادت فنڈز اور دیگر مسائل کے لیے بزدار صاحب کے پاس آئے اور یہ روداد سنائی کہ سیکٹریٹ میں ہماری کوئی بات بھی نہیں سنتا۔ تو بزدار صاحب نے کہا میرے ساتھ بھی یہی حال ہے۔

عمران خان کی اس پالیسی کی سب سے پہلے ق لیگ نے مخالفت کی۔اب ق لیگ کو یقین دلایا گیا آپ کا کوئی کام نہیں رکے گا۔ تو عثمان بزدار نے بھی یہی سوچ لیا کہ میں بھی اپنی بات منوانے کے لیے کوئی تدبیر اختیار کروں جس کے نتیجے میں وہ تقریباً بیس ممبران پر مشتمل یہ پریشر گروپ سامنے لے آئے۔ لیکن بظاہر عثمان بزدار واضح نہیں بتا رہے کہ یہ گروپ انہوں نے بنایا ہوا ہے لیکن اس فارورڈ بلاک کو بنانے میں اس کا واضح ہاتھ ہے کیونکہ اس گروپ میں شامل اس کا اپنا قریبی سیاسی رفیق خواجہ داود شامل ہے، جو اس کے ساتھ تونسہ شریف سے الیکٹ ہو کر آیا ہے، بہر حال اس فاروڈ بلاک نے پورے پنجاب میں ہلچل مچا رکھی ہے ، جس نے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت خصوصاً عمران خان کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔

اس بات پروزیراعظم صاحب کو حیران وپریشان کر رکھا ہے، وسیم اکرم نے اتنا بڑا محاذ کیسے کھول رکھا ہے؟اس دن کے بعد سے فواد چوہدری وزیراعظم کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے عثمان بزدار کے خلاف نکلا ہوا ہے اور زبر دستی استعفیٰ لینے کی کوشش میں ہے، لیکن اب عثمان بزدار ان کے گلے کا طوق بن چکا ہے۔ اسے یہ وزیراعلٰی شپ سے محروم نہیں کر سکتے ایک تو اب عثمان بزدار کے پارٹی میں حمایتی بہت نکل آئے ہیں، دوسرا ن لیگ پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے میدان میں اتری ہوئی ہے، جس کا ٹاسک انہوں نے رانا ثنا کو سونپا ہوا ہے۔ یقینا کھیل اب خطرناک مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔لہذا اب خان صاحب کو عثمان بزدار کے سامنے یا تو گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے یا پھر پنجاب حکومت سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔

اگر پنجاب کی حکومت چلی جاتی ہے تو یہ وفاق کے لیے سر پر لٹکتی ہوا تلوار کی مانند ہے، تو پھر پنجابی ایم این اے وفاداریاں تبدیل کر سکتے ہیں، اتحادی پہلے سے کئی کئی باتیں کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی سر گرم ہیں اور انہوں نے ایک نئی مہم چلانے کا عندیہ دے رکھا ہے ”چولہا جلاؤ حکومت ہٹاؤ”۔سب سے بڑی بات یہ ہے مہنگائی اس حکومت کی بنیادیں دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ایم پی اے،ایم این اے اور وزیر اپنے حلقوں میں جانے سے ڈر رہے ہیں وہ اپنے حلقے کی عوام میں اپنے آپ کو سر خرو کرنے کے لیے کوئی بڑا اقدام اٹھا سکتے ہیں۔جس کو کنٹرول کرنا پھر حکومت کے بس میں نہیں ہوگا ۔لہذا پنجاب میں ہلچل سے بہت بڑی تبدیلی واقع ہو سکتی ہے۔

جواب چھوڑ دیں