ایک شام ِ آگہی بنام ’ڈاکٹر رائیس احمد صمدانی‘

دنیا کا وطیرہ رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ اس دار فانی سے گزر جانے والوں کو خراج تحسین پیش کیا اور کس کس طرح سے کیا یہ بھی دنیا کے سامنے ہے۔ اس بات کا دکھ ہمیشہ ستاتا ہے کہ ہم کسی انسان کی خدمات کا اعتراف اسکی زندگی میں کیوں نہیں کرتے کیوں ہم اشخاص کی موت کے منتظر بیٹھے رہتے ہیں۔ اس کے جواز میں دو باتیں لکھنا چاہونگاایک تو اس بات کی گواہی ہے کہ ہم مردہ پرست لوگ ہیں اور دوسری بات یہ کہ انسان کو اسکی زندگی میں پذیرائی اسے تکبر کی جانب دھکیلنے کی بھی وجہ بن سکتی ہے اور ہم بطور انسان کیسے جیتے جاگتے اپنے جیسے کسی دوسرے شخص سے یہ کہہ دیں کہ جناب آپ اپنی ہستی میں ایک اہم ترین انسان ہیں۔ شاذ و نادر ہی ایسا دیکھا جاتا ہے کہ انسان کی خدمات کا اعتراف اسکی زندگی میں کیا گیا ہو اور وہ انسان ، انسان ہی رہا ہو۔ بات قدرے تلخ لیکن حقیقت سے قریب تر ہے ۔

ادب اور صحافت سے وابسطہ افراد پر مشتمل ایک ادارے (جو کہ پاکستان میں آن لائن لکھنے والوں کا بہت بڑا ادارہ ہے) ہماری ویب رائٹرز کلب کی جانب سے انسانی خدمات کے اعتراف کا سلسلہ کیا گیا ہے ۔ مختلف مکتبہ فکر لیکن علم و ادب کے فروغ کا مقصد لئے کچھ افراد پر ایک کمیٹی اس ادارے کو چلانے کیلئے بنائی گئی ۔ اس ادارے کی خاص بات یہ ہے کہ ہماری ویب ڈاٹ کام کے چیف ایگزیکٹیو جناب ابرار احمد صاحب کی علم دوستی کی وجہ سے اپنی سرپرستی میں اس ادارے کی داغ بیل ۲۰۱۴ میں تقریباً پانچ سال قبل ڈالی۔

چھوٹی بڑی ادبی و صحافتی تقریبات کا سلسلہ جاری رہتا ہے جوکہ مختلف موضوعات پر ہوتی رہی ہیں، اسکے علاوہ کمیٹی کی آپسی بیٹھک بھی سہ ماہی ہوتی رہتی ہے ۔ ہماری خوش قسمتی سمجھ لیجئے کہ ہم بھی اس کمیٹی کا حصہ ہیں جو کہ پانچ سال قبل بنائی گئی تھی۔ کمیٹی ممبران اور سربراہ کی مشترکہ رائے سے ایک نئے پروگرام کی داغ بیل ڈالی جانی تھی جس کا عنوان ’شامِ آگہی‘ متفقہ طور پر رکھا گیا ۔

اب اس ہستی کی تلاش شروع کی گئی جسکی خدمات کا اعتراف کیا جائے اور بہت غور کرنے کے بعد طے پایا کہ پہلی شام ہم اپنی کمیٹی کے صدر جناب پروفیسر ڈاکٹر رائیس صمدانی صاحب کیساتھ منائی جائے۔ اس طرح سے پہلی تقریب کراچی کے فاران کلب میں گزشتہ جمعہ مورخہ جنوری ۱۷، ۲۰۲۰ کو بعد نماز مغرب منعقد کی گئی ۔

تقریب میں مختلف ادبی و صحافتی شخصیات نے ڈاکٹر صاحب کے کام پر اور انکی خدمات میں بہت کچھ بیان کیا جس میں کچھ ڈاکٹر صاحب کے رفیق بھی تھے ، شاگرد بھی تھے اور ہمنوا ئوں کیساتھ ہماری ویب رائٹرز کلب کے ہم رکاب بھی تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا ابھی مختصر احاطہ ہی کیا گیا تھاکہ شام کی لالی رات کی سیاہی میں بدل گئی ۔ ہم کیونکہ اپنی بات کرنے سے قاصر رہے اور ایک تشنگی کیساتھ اس محفل سے رخصت ہوتے ہوئے یہ طے کیا کہ ہم ڈاکٹر صاحب کی پذیرائی اپنے قلم سے کرینگے جو ہم کرنے لگے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر رائیس احمد صمدانی صاحب تقریباً ۴۵ برس سے درس و تدریس کے شعبے سے وابسطہ ہیں ، ابتک ۳۴ کتابیں مختلف موضوعات پر شائع ہوچکی ہیں اور یقینا کتنی ہی ابھی اشاعت کے مراحل میں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے تعلق رکھنے والے باآسانی ایک شفیق روحانی باپ کو دیکھ سکتے ہیں اور چہرے کے تاثرات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ حالات و واقعات سے ایک طویل جنگ کر نے کہ بعد اب کسی سالار کی طرح دیکھائی دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے معاشرتی ذمہ داریوں کو ہی اپنا لبادہ نہیں بنایا ، آپ کی کامیاب ازدواجی زندگی جاری و ساری ہے، جس میں دو بیٹے اور ایک بیٹی بشمول پوتے پوتیاں ، نواسے اور نواسیاں شامل ہیں۔ڈاکٹر صاحب بطور شوہر ایک انتہائی ملنسار اور محبت کرنے والے ہیں، ایسا کہنا ہے آپ کی زوجہ محترمہ کا (جن کا پیغام انکی آواز میں سنایا گیا )۔ بطور پدر آپ اپنی ذمہ دارویوں سے قطعی نہیں چونکہ اور اس بات کی گواہی آپ کے خوب پڑھے لکھے بچے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کو علم سے محبت وراثت میں ملی تھی اور ڈاکٹر صاحب ایک واضع دار انسان ہونے کے ناطے اپنی وراثت سے کیسے منہ موڑ سکتے تھے ؟ ڈاکٹر صاحب کی دو اہم قابل ذکر خصوصیات جن کا تذکرہ ناآپ کی سفر حیات کیساتھ ناانصافی سمجھی جائے گی، پہلی بات ڈاکٹر صاحب کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا کردار کے عنوان سے منصوب ہوئی ۔ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے بہت ساری کردار سازی سے متعلق عادتیں حکیم محمد سعید شہید سے سیکھیں اور ان پر عمل پیرا ہوکر زندگی کو کامیابی کی راہ پر گامزن کیا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں لائبریری سائنس کے حوالے سے گنی چنی شخصیات ہیں ، جن میں سے ایک گراں قدر شخصیت ہمارے پروفیسر ڈاکٹر رائیس احمد صمدانی صاحب بھی ہیں۔

ڈاکٹر صاحب سے ہماری ویب کہ توسط سے وابستگی ہوئی جہاں ڈاکٹر صاحب بطور ایک لکھاری بعنوان ’رشحات قلم ‘جانے جاتے تھے، ڈاکٹر صاحب اپنی ذات میںعلم کا ذخیرہ لیئے پھرتے لیکن آپ نے کبھی ہم جیسے کم علموں پراپنے علم کا رعب ڈالنے کو شش نہیں کی۔ ہم نے ایسے تو بہت سے دیکھے ہیں جن کا تعلیم کچھ نہیں بگارٹی یعنی انکی شخصیت کسی بگڑے ہوئے نواب سی ہو کر رہ جاتی ہے ، لیکن پروفیسر ڈاکٹر ہونے کے باوجود تعلیم نے آپ کا بہت کچھ بگاڑدیا ہے اور اپنے سے کہیں کم علم والوں سے بھی آپ کے ملنے کا طریقہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے اپنے سے کہیں عالم و فاضل سے مل رہے ہوں۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ حکیم محمد سعید شہید سے رغبت ہو اور ہمارے پیارے نبی ﷺ سے محبت نا ہوسکے ، ڈاکٹر صاحب کی خندہ پیشانی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ آپ سچے عاشقِ رسول ہیں اور اطباع رسول کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہم اللہ تعالی کے حضور دعا گو ہیں کہ ڈاکٹر رائیس احمد صمدانی صاحب کو ایمان اور صحت کیساتھ عمر خضر عطاء فرمائیں اور ہمیں انکے فیض سے مستفید ہونے کی توفیق عطاء فرمائے(آمین یا رب العالمین)

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں