اخلاقی اقدار کا جنازہ

باجی اے جے میوش اے اینوں مافی تے مل جانڑی اے ناں؟”

میں جو کھانا بنانے میں مشغول تھی جمیلہ کے اس سوال پہ چونک کر مڑی

کون میوش جمیلہ؟

ایہو ای جو ڈرامے دے وچ آ رئی اے خبرے کی ناں سی ڈرامے دا۔

منڈے نے دسیا وی سی۔جمیلہ نے یاد کرنے کی کوشش کی

پر چھڈو جی ناں وچ کی رکھیا اے۔نمانڑی بڑی شرمندہ اے۔وظیفے تک پڑھن تے آگئی۔بڑی نیک ہو گئی اے جی۔مینوں تے لگدا اے رب سوھنڑے نے سنڑ لینڑی اے اس دی تے اس دے مرد نے اس نوں رکھ لینڑا اے جی۔نزیراں نے بڑی فراخدلی کا مظاھرہ کیا۔

اور میں حیران نظروں سے بس اسے دیکھ کر رہ

گئی اور اسکی سوچ پہ ماتم کرنے لگی۔مگر ٹھہری اس میں اس کا کیا قصور اس کا تعلق تو معاشرے کے اس طبقے سے تھا جہاں گناہ اور ثواب کا تصور صرف اس حد تک تھا کہ پانچ وقت کی نماز پڑھنی ہے اور بہت ہو گیا تو شوہر کو راضی کرنے کے لئے مولوی صاحب سے وظیفہ لے لینا ہے۔اس کی سوچ تو اس حد تک جا ہی نہیں سکتی کہ جہاں یہ بھی دیکھا جائے کہ ڈرامے کی ہیروئن نہ صرف اپنے شوہر اور بچے کی گناہ گار ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے بنائے قانون کو توڑنے والی بھی ہے۔

رائٹر سے سوال ہے کہ وہ تو اپنے آپ کو ایک منجھا ہوا رائٹر اور معاشرے کے ساتھ مخلص ہونے کا دعویٰ ایک پروگرام میں کرچکے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی تحریر میں پختگی بھی ہے اور وہ قاری کو ہپناٹز کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں، جبھی تو انھوں نے پاکستان کی ایک کثیر

آبادی کو آجکل ڈرامہ سیریل ” میرے پاس تم ہو “ پہ فوکس کروا دیا ہے، نہ صرف یہ بلکہ لوگوں کے لئے فکر کی نئی راہیں کھول دی ہیں۔

تو بتائیں کہ وہ معاشرے کو کیا دینا چاہتے ہیں؟ ؟ یہ سوچ کہ دو مرد و عورت جو زنا جیسے ناقابل معافی جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور ان کے لئے اللّہ تعالیٰ نے سنگسار کرنے کا حکم دے رکھا ہے ان کے ساتھ معاشرے کو نرمی دکھانی چاہیئے ؟ ؟ ؟

قطع نظر اس کہ انہوں نے گناہ کیا وفا اور بے وفائی پہ فوکس کروا کر مہوش کی موجودہ حالت کو قابل رحم اور قابل معافی بنا دیا جائے اور پہلا شوہر اپنا ظرف بلند کر کےاسے اپنا لے ؟ ؟

یا پھر عورت بنیادی طور پر لالچی اور بے وفا ہوتی ہے اور مرد لاچار ؟ ؟

مجے واقعی ڈرامے کی ساری کہانی کے بعد یہی اندازہ ہوا کہ ان کے دماغ میں مختلف اسلامک احکامات کے خلاف ایک کھچڑی تھی جو انھوں نے ایک ڈرامے کے ذریعے عوام کو کھلا دی؟

ان کو کیا لگتا ہے کہ وہ اس ڈرامے کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کر رہے ہیں؟ کیسی اصلاح جب وہ ایک ویل ڈریسڈ شخص کو شراب پیتے دکھا رہے ہیں اور ایک بہت ہی حسین عورت کو ایک امیر کبیر شخص کے ساتھ عورت بھی وہ جو عدت میں ہے ناچتے دکھا رھے ہیں؟ ؟ آپ کو کیا لگتا ہے؟ کہ ہمارے معاشرے کے سو فیصد افراد باشعور ہیں؟

آپ کی اطلاع کے لئے باشعور افراد تو ڈرامے دیکھتے ہی نہیں ہیں ان کے پاس ٹائم ہی نہیں ہوتا ڈرامہ دیکھنے والے زیادہ تر افراد کچی آبادیوں کے مکین ہیں یا پھر ہماری نوجوان نسل۔

کیا نوجوان اتنی پختہ سوچ کے ہوتے ہیں ؟ ؟ جی نہیں آپ کا دعویٰ بالکل غلط ہے۔

مان لیجئے کہ اس ڈرامے کےذریعے غیر اخلاقی اقدار کا زہر آپ نے معاشرے میں انڈیل دیا ہے اور اس کے اثرات جہاں جہاں تک پھیلیں گے آپ اس کے جوابدہ ہوں گے شاید دنیا کی عدالت آپ کو مجرم نہ کہے مگر خدا کی عدالت میں پوچھ ضرو رہو گی۔

جواب چھوڑ دیں