پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

ہمارے زمانے میں گانوں کا بہت ہی زیادہ رواج ہوا کرتا تھا۔ گھر میں گانے، گھر سے باہر نکلو تو گلیوں میں گانے، سڑکوں پے گانے، بازاروں میں گانے، کسی بھی بس یا منی بس میں بیٹھ جاؤ گانے اور ٹرینوں میں گانے۔ کوئی جگہ ایسی نہیں تھی جہاں گانوں کی گونج سنائی نہ دیتی ہو یہاں تک کہ کوئی سی بھی نماز ہو، حتیٰ کہ نمازِ تراویح میں بھی تلاوت کے ساتھ ساتھ لاؤڈ اسپیکر ریڈیو پر نشر ہونے والے گانوں کو کیچ کر لیا کرتا تھا جس کی وجہ سے تلاوت اور گانے، دونوں ایک ساتھ نمازیوں کے کانوں تک پہنچ جایا کرتے تھے۔ کچھ گانے وہ بھی ہوتے تھے جو زباں زدِ عام تھے جن میں ایک گانا کچھ یوں بھی تھا “نانا کرتے پیار تمہی سے کر بیٹھے، کرنا تھا انکار مگر اقرار تمہی سے کر بیٹھے”۔

میں این آر او نہیں دونگا سے میں نے تو این آر او دے بھی دیا، تک کی کہانی بھی کچھ اسی طرح کی ہے کہ نانا کرتے پیار ان ہی باتوں سے کر لیا جس سے شدت کے ساتھ انکار کا اقرار تھا۔

خبر ہے کہ “وزیراعظم عمران نے 100مختلف چھوٹے کاروبارکولائسنس سے استثنا دینے اور دکانداروں پرغیر ضروری ٹیکسز ختم کرنے کا حکم دے دیا”۔

چھوٹے کار و باری جو محدود پیمانے پر کار و بار کرتے ہیں ان پر اتنا بار نہ ڈالا جائے کہ وہ کاروبار سے ہی ہاتھ اٹھا بیٹھیں لہٰذا جو لائسنس کی قید ان پر لگائی گئی تھی اور جو ٹیکسز ان پر عائد کئے گئے تھے، وہ ظالمانہ تھے جس کو واپس لینے کا اعلان کیا جارہا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے 15 ماہ سے بھی زائد عرصے میں کار و بار کو جو شدید نقصان پہنچا اور جس کی وجہ سے عوام کو ساری اذیتیں برداشت کرنا پڑیں تو کیا ان کا بھی ازالہ کیا جائے گا یا جو کچھ خون عوام کا چوس لیا گیا ہے، وہ قیامت تک واپس نہیں کیا جائے گا۔ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کا کیا بھروسہ کہ پہلے پہل لگائی گئیں قیود جو اب لاچاری اور مجبوری کی حالت میں اٹھا لی گئی ہیں کیا وہ دوبارہ نافذ نہیں کی جائیں گی؟

پاکستان کے عوام 1971 میں قائم ہونے والی حکومت کو کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے، جب پورے پاکستان کو قومیا لیا گیا تھا۔ راتوں رات سارے مل مالکان، اسکولوں کے معمار اور ہر قسم کے چھوٹے بڑے تاجروں سے ان کی زندگی بھر کی ساری پونجی چھین کر قومی تحویل میں لے لی گئی تھی۔ پھر اس کے بعد سے آج تک پاکستان انھیں دوبارہ نجی ملکیت میں دینے کی جنگ لڑ رہا ہے۔

جب سرمایہ داروں کو اس بات کی دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اپنا کار و بار خود کریں تو وہ اپنا سرمایہ لگاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ ان کا ڈر اس لئے بجا ہے کہ پاکستان کی کسی بھی حکومت کا کچھ علم نہیں کہ کب وہ گرگٹ کی طرح اپنا رنگ بدل لے اور جمے جمائے کار و بار پر سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھ جائے اور سرمایہ داروں کی لگائی ہوئی ساری جمع پونچی ایک ہی رات میں ہوا میں تحلیل ہو جائے۔

بے شک پاکستان میں اتنے ڈر اور خوف کے باوجود سرمایہ لگانے والے سرمایہ کاری کر رہے ہیں لیکن شاید ہی کوئی سرمایہ دار ایسا ہو جو حکومت سے قرض لئے بغیر اپنا سرمایہ کسی کاروبار میں لگانے کیلئے تیار ہوئی ہو۔

موجودہ حکومت جس دعوے کے ساتھ آئی تھی اس میں سب سے بڑا دعویٰ ہی یہی تھا کہ وہ خود کفالت کی جانب جائے گی لیکن پچھلوں سے بھی زیادہ کشکول تھامے نظر آئی۔ لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کی باتیں ہوئیں لیکن لٹیروں کو رعایتیں دینے پر معاملات ختم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافے کا دعویٰ تھا لیکن سو سے زیادہ کاروباریوں پر سے لائسنس کی قیود ہٹائی جارہی ہیں۔ ٹیکس میں اضافے کی باتیں تھیں لیکن بیشمار ٹیکسز معاف کئے جارہے ہیں اور احتساب کی باتیں کرتے کرتے ہوا یہ کہ نیب کے قوانین میں بیشمار تبدیلیاں ایسی لائی گئیں کہ نیب کے ہاتھ پاؤں ہی باندھ کر رکھ دیئے گئے۔

حکومت کا دعوؤں میں سب سے بڑا دعویٰ یہی تھا کہ “این آر او” نہیں دیا جائے گا یعنی باالفاظِ دیگر کسی کو بھی کسی قسم کی کوئی غیر قانونی رعایت حاصل نہیں ہو سکے گی لیکن، نواز شریف باہر ہیں، شہباز شریف ان کی دیکھ بھال کیلئے بھیج دیئے گئے ہیں، زرداری صاحب سر دیوں کی راتوں کے مزے اڑا رہے ہیں، فریال تالپور ان کی خدمت کیلئے مقرر کی گئی ہیں اور رانا ثنااللہ حکومت کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنسے حکومت کی ہر فورم پر عزت افزائی میں مصروف ہیں لیکن لگتا ہے کہ حکومت کے جتنے بھی گھڑے ہیں وہ سب کے سب بالکل چکنے ہیں۔

تفصیل کے مطابق وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں انہیں بریفنگ دی گئی کہ موجودہ لائسنس نظام میں کرپشن، رشوت ستانی اورکاروباری افراد کو ہراساں کرنے کی شکایت عام ہے، چھوٹے درجے کے 150مختلف کاروباروں کے لیے میونسپل کارپوریشنز اور دیگر اداروں سے لائسنس درکار ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم نے پیچیدہ لائسنس نظام پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کریانہ، کپڑا، کلچہ شاپ اور دیگر کے لیے لائسنس کی شرط مشکلات پیدا کرنے کے مترادف ہے، ایسے غیر ضروری لائسنس کی شرط کو فوری طور پر ختم کیا جائے،غریب کاروباری افراد کو بے جاتنگ نہ کیا جائے۔

وزیر اعظم کو جن مشیران کی جانب سے بھی یہ بریفنگ دی گئی کیا یہ سارے افراد پہلے نیپال گئے ہوئے تھے۔ رہی رشوت ستانی کی بات تو یہ تو ہوا اور پانی کی طرح اس قدر وافر مقدار میں موجود ہے کہ جس کیلئے کسی بھی قسم کے لائسنس ہونے یا نہ ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہوا کرتی اور “چائے پانی” کہلایا جانے والا لفظ اب اتنا عام ہو گیا ہے کہ اس کا مطالبہ کسی بھی صورت میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہاں اہم نقطہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کہ ملک میں رشوت ستانی عام ہے، کیا اس کے خلاف بھی کسی فوری کارروائی کا اعلان کیا گیا۔ رشوت عوام تو نہیں لیا کرتے، مقتدر ادارے ہی کسی کو رشوت دینے پر مجبور کیا کرتے ہیں۔ اگر ان کی نہیں مانی جائے تو تو کاروبار تو کاروبار، کاروباری کے بیوی بچے بھی ان کی دست برد سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔

بات یہ نہیں کہ لائسنسز کا اجرا بند کیا جائے یا نہیں، بات یہ ہے کہ کاروبار کے فروغ کیلئے کیا کیا اقدامات ایسے ہیں جس کی وجہ سے سرمایہ کاری کرنے والوں کو اعتماد حاصل ہو سکتا ہے۔ ان کے سرمائے کو تحفظ ہے یا نہیں، جو کاروبار وہ کررہے ہیں وہ بھتا خوروں سے پریشان تو نہیں۔ وہ لٹیروں کے آگے بے بس تو نہیں۔ انھیں ڈاکوؤں سے جان و مال کا ڈر ہے یا نہیں۔ یہ ہیں وہ سارے پہلو جو، چھوٹے ہوں یا بڑے، سرمایہ کاروں کو تحفظ حاصل نہیں ہوگا اس وقت تک کوئی بھی اپنے سرمائے کو مکمل اعتماد کے ساتھ کسی کاروبار میں نہیں لگا سکتا۔

موجودہ حکومت کو یہ ماننا پڑے گا کہ ملک چلانے اور کرکٹ کی ٹیم بنانے میں بہت واضح فرق ہوتا ہے۔ یہ کرکٹ میں ہوتا ہے کہ میں فلاں کو نہیں کھلاؤنگا اور فلاں کو گلی میں اور فلاں کو لانگ آف یا آن پر پلیس کرونگا۔ سیاست کے میدان میں اٹل ہوجانا سیاست دان ہی کو نہیں، ملک کو بھی تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے جس کی سب سے بڑی مثال اپنے ہر دعوے کے خلاف اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوجانا ہے۔ یعنی ویسی ہی بات جو “نا نا کرتے پیار، پیار کر بیٹھنا” میں کہی گئی تھی۔ بہر حال ہم دعا گو ہیں کہ تاجروں کیلئے اعلان کردہ سہولیات کا اثر عوام تک پہنچے تو بہت ہی اچھا ہے ورنہ سارے اقدامات نہ تو پاکستان کی معیشت کی مضبوطی اور حکومت کی آمدنی میں اضافے کا سبب بنیں گے اور نہ ہی عوام کیلئے خوش کن ثابت ہونگے اور حکومت کے انکار کا اقرار میں بدل جانا خود اس کیلئے گلے کا ایک اور پھندہ بن کر رہ جائے گا اور پوری دنیا یہی کہتی نظر آئے گی کہ “پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا”۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں