زمین ہماری حکومت تمھاری

ہم روز صبح و شام،دن و رات سیاست سے متعلق خبریں سنتے ہیں اور دیگر دنیاوی معاملات کی نسبت سیاست میں ہی زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ٹی وی ٹاک شوز ٹیلی ویژن پر توچل ہی رہے ہوتے ہیں مگر دوسری طرف ہر گلی،چوک اور دکان پر بیٹھا دوسر ا شخص بھی سیاسی تجزیہ کرنے میں مصروف ہوتا ہے تاہم اگر کسی شخص سے اتنا ہی پوچھ لیا جائے کہ سیاست ہوتی کیا ہے تو کوئی شاذو نادر ہی کوئی شخص ہو گا جو یہ جواب دے سکے کہ سیاست اسے کہتے ہیں بلکہ غالباً جواب یہ دے گاکہ یہ تو بڑے لوگوں کے کرنے کا کام ہے۔

اب سوچے ہم اس نہج پر کہ ہم شہری تو ہیں مگر ہمیں ریاست کا نہیں پتا۔ہمارے ملک کے عوام کی یہ حالت کیسے بنی کہ ایک محدود آزادی کا حامل میڈیا عوام کو جس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیتا ہے تو مجبوراً عوام اسی کے پیچھے لگ جاتی ہے کہ شاید ہماری تقدیر بدلنے والی ہے اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے تاکہ عوام مزید کوئی سوال اور اقدام نہ کرسکے، جب کہ ملک تو پچھلے 72سالوں سے نازک دور سے گزر رہا ہے اور ہم غلام ابن غلام ہوگئے اور آج اپنی مرضی سے کسی عالمی تقریب میں بھی شرکت نہیں کرسکتے اور پھر اس چکر میں اپنے ان دوستوں کو بھی ناراض کردیتے ہیں جو FATFجیسی تلوار سے ہمار ا گلا کٹنے سے بچاتے ہیں۔

اگر ان تمام سوالوں کا جواب دیکھا جائے تو وہ ایک ہی ہے کہ ہماری ریاست مستقل طور پر ایک چند سری حکومت کے ہاتھ میں ہے جس کو عوام کے جذبات اور خیالات سے کوئی آگاہی نہیں ہے یہ وہ سب فیصلے کرتے ہیں جس سے انہیں خود وقتی طور پر فائدہ ہو۔

دوسری بات یہ لازمی طور پر سمجھ لیں ریاست خود بذات کوئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ چار چیزوں کا مجموعہ ہے۔عوام،زمین،حکومت اور اقتدار اعلیٰ۔

آئین پاکستان کی روح سے تو اقتدار اعلیٰ اللہ کو حاصل ہے، مگر حقیقت میں یہ اقتدار اعلی اشرافیہ کے اس طبقہ کو ہی حاصل ہے جو قیام پاکستان سے آج تک ہم پر مسلط ہے اور اسی طبقے کے غلط فیصلوں کے باعث پاکستان دولخت ہوا اور معاشی طور پر ایک غلام ملک بن چکا ہے۔

اب جب کہ اقتدار اعلیٰ تو اس طبقہ کے پاس ہے تو حکومت بھی اسی طبقہ کی ہوگی تو پھر عوام کے پاس کیا بچے گا؟ بس زمین کا وہ ٹکرا جو صرف اس کے قدموں کے نیچے ہیں۔عوام کو یہ زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ وہ اقتدار اعلیٰ چاہیے جس کا مالک اللہ ہے اور اس نے یہ عوام کو امانت کے طور پر دیا ہے تب ہی یہ ریاست ایک عوامی اور فلاحی ریاست بنے گی۔ اسی لیے آخرمیں یہی کہنا پڑ رہاہے کہ زمین ہماری حکومت تمھاری۔

جواب چھوڑ دیں