اتحادی جماعت اور حکومت کی دوڑیں

پاکستانی عوام کے لیے معاشی لحاظ سے سال 2019ء مایوس کن رہا ، معیشت كکے حالات ایسے ہیں ك اب سڑکیں، ریلوے وغیرہ بنانا اتنا آسان نہیں رہا عوام آئے روز گیس پیٹرول اور بجلی کے اضافی پیسوں سے تنگ آچکے ہیں ، ترقیاتی فنڈز کم سے کم تر ہو رہے ہیں، آئی ایم ایف سے قرض لے کر معیشت ٹھیک کرنے کے بعد ترقیاتی کاموں کے لیے قرض بھی نہیں لیے جا سکتے تو ایک پر سکون صنعت و حرفت، شفقت اور روزگار کے سب سے بڑے مرکز کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کہ یہاں کے باسی نہ صرف اپنی جان و مال کو غیر محفوظ سمجھنے لگے بلکہ آئے دن نئے وارداتوں اور گندگی کے ڈھیر میں سانس لینا بھی محال ہوگیا ہے ، ساتھ ہی وفاقی حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے بعد مسلم لیگ (ق) بھی ناراض ہوگئی۔

وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں ملکی معاشی، سیاسی صورتحال پر غور کیا گیا اور کئی اہم فیصلے کیے گئے گزشتہ دنوں ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے وزارت سے استعفیٰ دیتے ہوئے وفاقی کابینہ چھوڑنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد سے ہی حکومتی رہنماؤں کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی کے بعض اقدامات اور پالیسیوں سے نالاں نظر آتی ہیں ، جس کا اظہار انھوں نے نوازشریف کو بیرون ملک بھجوائے جانے کے موقع پرکھل کر کیا اس وقت ق لیگ، ایم کیو ایم پاکستان، جی ڈی اے اور بی این پی مینگل کے رہنماؤں کا موقف ہے کہ ان کی اتحادی کی حیثیت کو نہیں مانا جاتا، اہم امور پر نہ تو مشورہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی فیصلہ سازی میں انہیں اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ مختلف ایشوز پر ان کی رائے کو نظر انداز بھی کیاجاتا ہے۔ فیصلوں کے بارے میں انہیں محض بتایا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کےسینئر رہنما خالد مقبول صدیقی نے پارٹی قیادت کے ہمراہ پریس کانفرنس میں وفاقی کابینہ سے علیحدہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے حکومت سے وعدہ کیا تھا کہ حکومت بنانے میں آپ کی مدد کریں گے،ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا لیکن ہمارے ایک نقطے پر بھی پیش رفت نہیں ہوئی،میرے لیے مشکل ہوتا جا رہا تھا کہ میں حکومت میں بیٹھا رہوں، میرا وزارت میں بیٹھنا بہت سارے سوالات کو جنم دیتا ہے، لہذا اب وفاقی کابینہ میں بیٹھنا بے سود ہے کیونکہ میرے وزارت میں بیٹھنے سے کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے اسد عمر اور گورنر عمران اسماعیل کو ایم کیو ایم کی قیادت سے ملکر ان کے تحفظات دور کرنے کا ٹاسک دے دیا ہے۔ خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ہم نے وزارت قانون و انصاف نہیں مانگی تھی، ہم نے جو دو نام وزارتوں کے لیے دیئے تھے ان میں فروغ نسیم کا نام شامل نہیں تھا، حکومت کو ایک ایسے وکیل کی ضرورت تھی جو ان کے مقدمات اچھی طرح سے لڑ سکے اس لیے انہوں نے فروغ نسیم کو خود منتخب کیا۔ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے واضح کیا کہ ان کی جماعت نے حکومت کے سامنے عوامی مسائل کے نکات رکھے لیکن اس عرصے کے دوران جو بھی پیش رفت ہوئی وہ کاغذ تک ہی محدود رہی۔ان کا کہنا تھا کہ وہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے حکومت سے مطالبات کرتے آئے ہیں لیکن کراچی کو ایک ارب روپے دینے میں بھی انتہائی کٹھن مراحل سے گزرنا پڑ رہا ہے۔

چند روز قبل پیپلز پارٹی ( پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے متحدہ قومی موومنٹ کو یہ پیشکش کی تھی کہ وہ عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجنے میں اپنا کردار ادا کرے۔چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ امید ہے آج نہیں تو کل ان کو یہ فیصلہ لینا پڑے گا، پاکستان کو بچانا پڑے گا اور نیا پاکستان ختم کرنا پڑے گا وفاقی حکومت سے تعاون ختم کرے تو انہیں سندھ کابینہ میں وزارتیں دی جا سکتی ہیں۔ ایک طرف حکومت گرانے کی کوشش کی جارہی ہے تو دوسری طرف حکومت روٹھے اتحادیوں کو منانے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہےتاہم ایم کیو ایم نے اس آفر سے انکار کردیا تاہم متحدہ قومی موومنٹ اپنے مطالبات منوانے کے لیے بھر پور کوشش کر رہی ہے۔

جواب چھوڑ دیں