میرے محافظ

کہتے ہیں کہ دوسروں کی پلیٹ میںسیب میٹھا اور پیارا دکھائی دیتا ہے،ایسے ہی جیسے ’’گھر کا جوگی جوگڑا اور باہر دا جوگی سدھ‘‘اسے آپ انسانی فطرت قرار نہیں دے سکتے بلکہ انسانوں کے اندر کا خوف اور احساس کمتری کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں اپنے اوپر اعتماد نہیں ہوتاجس کی بنا پر ہمیں ہر وہ چیز،شخص اور ادارے پر کشش اور فعال دکھائی دیتے ہیں جو ہماری دسترس سے باہر ہو ں۔

جیسے کہ آجکل پاکستان میں افواج ِ پاکستان پر تنقید کرنا ایک فیشن سا بن گیا ہے۔ہمارا ایک دوست کہا کرتا ہے کہ جسے ماں چولہے کے پاس نہیں بٹھاتی وہ بھی افواج پاکستان کو طعن تشنیہہ سنا رہا ہوتا ہے۔

حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ جو وطن کی خاطر اورعوام کی حفاظت کے لئے سرحدوں پر پہریدار بن کر راتوں کی نیندیں اور دن کا سکون برباد کئے ہوئے ہیں ،ہم عوام کو بھی ان کی آنکھوں کا نوراور ماتھے کا جھومر بننا چاہئے تاکہ ہم ان پر فخر کرسکیںاور وہ بھی ہم پر غرور کر سکیں کیونکہ افواج اور عوام جب ایک صف میں کھڑے ہو جائیں گے تو اندرونی وبیرونی دشمن کی جراٗت نہیں ہوگی کہ ملک کی طرف میلی نظر سے دیکھ سکے۔تاریخ کے ایک عظیم شہنشاہ کا قول یاد آگیا کہ۔

فرانکیا کے مشہور شہنشاہ شارلیمین نے کہا تھا کہ ــ’’فوج نہ تو کبھی شکست کھاتی ہے اور نہ ہی کبھی ہتھیار ڈالتی ہے تب تک جب تک اسے یقین رہتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک محبت کرنے والی قوم موجود ہے‘‘۔

اسی جذبہ ،عقیدہ اور فلسفہ کے پیچھے ہمارا یقین کامل مانند تب و تاب خورشیدہونا چاہئے کہ ملک پاکستان کی افواج بھی ہم میں سے ہے اور ہم عوام قانونی ،آئینی دائرے میں رہتے ہوئے ان کے ساتھ ہر اس محاذ پر شمشیر بکف ہیں جہاں انہیں ہماری ضرورت درپیش ہے۔عوام اور افواج کا ایک دوسرے کے لئے جذبہ احترام آج کی بات نہیں ہے،ہر عظیم جرنیل،بادشاہ،شہنشاہ اسی فلسفہ پر عمل پیرا ہو کرکامیابی کی منزلوں کو چھوا کرتے تھے۔

جیسے کہ اشوک دی گریٹ جو کہ چندر گپت موریہ کاپوتا تھا جس نے موریہ سلطنت کی وسعت میں اہم کردار ادا کیا اس کی سب سے مشکل اور آخری جنگ کلنگا کی لڑائی تھی،کلنگا جو کہ موجودہ اڑیسہ اور شمالی آندرا پردیس پر مشتمل علاقہ تھا ،کلنگا کا راجہ اننتھا بذات خود عسکری مشاق اور جنگی چالوںکا ماہر تھا،اشوک اور اننتھا کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکہ ہوا جس میں اشوک دی گریٹ نے کثیر فوج کی مدد سے فتح یابی حاصل کی۔اشوک دور حکومت میں یہ واحد معرکہ تھا جس میں مخالفین کی طرف سے اشوک کو سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور یہی لڑائی تھی جس نے اشوک کی زندگی کو یکسر بدل کر بھی رکھ دیا یعنی جب جنگ کے خاتمہ پر اشوک نے میدان کارزار کا معائنہ کیا تو ہر سو لاشوں کے انبار اور تعفن زدہ ماحول دیکھ کر ہی فیصلہ کیا کہ آج کے بعد کوئی جنگ نہیں ہوگی اور ساتھ ہی اس نے اپنی دو لاکھ فوج کو بھی آزاد کردیا۔دولاکھ فوج کی مستقل چھٹی پر موقع پرست وزرا کی ایک جماعت نے اشوک کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ اگر ہمارے پاس فوج نہیں ہوگی تو ہم دشمن کا کیسے مقابلہ کریں گے جس کے جواب میں اشوک نے اپنے تاریخی کلمات کہے کہ’’پہلے میری ریاست کی حفاظت میری دو لاکھ فوج کیا کرتی تھی اب بیس لاکھ عوام میری ریاست کی حفاظت کرے گی‘‘

عوام بھی ملک کے لئے تب ہی اپنے آپ کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوتی ہے جب اسے یقین ہو چلا ہوتا ہے کہ ہماری افواج سرحدوں پر چاق وچوبند ہے،الحمد للہ مجھے فخر ہے کہ میں اس ملک کا باسی ہوں جس کی افواج ہمہ تن،ہمہ وقت مستعد وتوانا اور ہر پہلو باہوش وباخبر ہونے کے ساتھ ساتھ کمر بستہ ہے کہ دشمن کا کوئی ابھی نندن آئے تو اس کے ساتھ وہ کرگزرے کہ پھر کبھی ادھر کا رخ بھی نہ کرے۔

لیکن کبھی کبھی میں اپنوں کے رویوں سے سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ ایسے حضرات جو اپنے ہی ملک کی افواج کے بارے میں درشت وہتک آمیز کلمات کہہ جاتے ہیں کیا انہیں اس ملک میں رہنے کا کوئی حق حاصل ہونا چاہئے،ہمیں اپنی فوج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملانا چاہئے۔ اگر ہم سب ایک باہم دست وبازو بن جائیں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا،انشا اللہ۔

خاص کر موجودہ خطہ کی صورت حال کا اگر جائزہ لیا جائے تو ایران امریکہ کشیدگی کے بعد میڈیا پر ایک محاذ کھل چکا ہے کہ ہماری فوج کو کیا اقدامات کرنا چاہئے،ہمیں کس کا ساتھ اور کیوں دینا چاہئے؟ ہماری افواج کو حالیہ کشیدگی میں اپنا کردار کس طرح سے ادا کرنا چاہئے؟ ہمیں صرف اپنی افواج کی پشت پر کھڑے ہونے کی یقین دہانی کرانی ہے۔ اس لئے کہ اگر چاروںاطراف دشمن پیدا کر لئے جائیں تو قوموں کی بقا مشکل ہو جاتی ہے۔لہذا ہمیں اپنی بقا،حب الوطنی،اور پاکستان کی خاطر سیاست چمکانے کی بجائے باہم متحد ہوکردنیا کو دکھائیں کہ ہمارے سیاسی نظریات میں بھلے اختلافات ہیں لیکن ملکی وقار اور بقا کے لئے ہم ایک ہیں،کیونکہ اگر افواج پاکستان ہماری محافظ ہے تو ہم بھی ان کے محافظ ہیں۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں