اجاڑ کے گھر کہتے ہو نیا سال مبارک

میں اپنے گزرے سال کی یادیں آپ سب سے شئیر کروں، اس سے پہلے میں ایک پیغام دینا چاہوں گی، امن کا پیغام محبتوں کا پیغام، احساس کا پیغام،آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہ تو سارا سال سبھی دیتے ہیں بلاشبہ دینا بھی چائیے۔ گو کہ ہر سال ہی ہمیں اچھی بری یادیں سونپ کے گزر جاتا ہے لیکن ہماری قوم کا المیہ ہے کہ وہ جشن منانے کے بہانے تو تراش لیتی ہے لیکن انسانیت کے حقوق بھلا دیتی ہے۔

دیکھا جائے تو اسلامی سال سے نئے سال کا آغاز ہوجاتا ہے ہم امتِ مسلمہ کا۔چونکہ ہم ہماری زندگی کا تمام نظام انگریزی تاریخ سے چلتا آرہا ہے اس لحاظ سے جنوری سے آغاز ہوتا ہے نئے سال کا۔نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے انداز کافی بے ڈھنگے اور تکلیف دہ ہیں۔ اسکا سبب ہے دین سے دوری۔

مغربی تہذیب کے زیراثر ہماری قوم دیوانی ہوجاتی ہے خاص طور پہ نوجوان نسل۔حالانکہ کسی بھی نیک کام کا آغاز اللہ اور اس کے نبی پاک ﷺ کے نام سے شروع کیا جاتا ہے ایک دوسرے کو مبارکباد دی جاتی ہیں تحائف بانٹے جاتے ہیں۔مگر ہمارے ہاں سال کا آغاز ہی ہنگامہ آرائی سے ہوتا ہے 31دسمبر کی رات 12بجتے ہی اس قدر آتش بازی اور اسلحے کا استعمال کیا جاتا ہے کہ ہر انسان گھروں میں اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھے خوفزدہ ہو کر دعائیں کر رہا ہوتا ہے اپنے اہل خانہ کہ لیے جو کسی کام یا مجبوری کے تحت گھر سے باہر ہوتے ہیں، یہ سلسلہ کوئی آدھے یا ایک گھنٹہ جاری رہتا ہے جس کے نتیجے میں کچھ ہی دیر میں نیوز چینلز سے خبریں موصول ہونے لگتی ہیں کہ کس شہر میں کتنے لوگ فائرنگ سے زخمی ہوئے،کتنے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، نتیجہ یہ نکلا کہ ”کسی نے منائیں خوشیاں کسی کا لہو بہا کے“سال کے آغاز ہی میں کسی کا باپ،کسی کا بیٹا،کسی کا شوہر جدا ہوگیا آپ کی خوشیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔

بہا کے خون کہتے ہو نیا سال مبارک

تم کو یہ بے حسی خودغرضی مبارک

تم نے منائیں خوشیاں اجاڑ کے گھر کسی کا

کس منہ سے پھر کہتے ہو نیا سال مبارک

یہ سب ہر سال ہم سنتے ہیں سوشل میڈیا پہ دیکھتے ہیں اور تین سال پہلے یہ سب ہنگامہ آرائی اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا اتفاق ہوچکا ہے۔ جس وقت میرے ماموں کو گولی لگی جوکہ ہوائی فائر تھا وہ اپنی بیٹی کے لیے چاکلیٹس خریدنے ایک شاپ پہ رکے 12بجتے ہی ہوائی فائر شروع ہوئے اور کتنے ہی لوگوں کے لیے اذیت کا سبب بنے۔کہنے کا مقصد اتنا ہے کہ اپنی خوشیاں ہی عزیز نہ رکھیں اپنے اہل محلہ کا خیال کریں سال نو کا آغاز محفل میلاد منعقد کر کے بھی کیا جاسکتا ہے یا گھروں پہ دعوتوں کا اہتمام کرکے تحفے تحائف سے بھی کیا جاسکتا ہے لیکن افسوس ہماری قوم نہیں سوچتی جس کا افسوس حد درجہ ہے۔

لمحہ فکریہ!!

اب آتی ہوں اصل موقف کی جانب کہ اس گزرتے سال میں کیاکھویا؟ کیا پایا؟کیا سیکھا؟کیسی یادیں وابسطہ رہیں؟اس سال کے ساتھ۔

کھونے اور پانے کا نام ہی زندگی ہے۔ دکھ سُکھ کا چولی دامن کا ساتھ ہے جہاں دُکھ ہوں وہاں مسلسل دکھ ہی نہیں رہتے کیونکہ اندھیروں کے بعد ایک خوبصورت اُجالا بھی ہوتا ہے۔ انسان کو اس پہ شاکر رہنا چائیے کہ اگر غم زندگی میں شامل ہوگئے ہیں تو یہ اللہ کی جانب سے آزمائش ہیں ہمیں صبر شکر کر کے اپنے حصے کی خوشیوں کا انتظار کرنا ہے یہ ہی زندگی کا مقصد ہونا چاہئیے ۔

میں آج سے تین سال پہلے فیس بک پہ وارد ہوئی اور یہاں مجھے سب ہی نے محبت پیار دیا عزت دی، سب سے بڑی بات میرے ہاتھ میں قلم تھمادیا جو کہ میرا شوق تھا لیکن کبھی موقع نہیں مل سکا پورا کرنے کا ، دستک میرا مکتب بنا اور دستک انتظامیہ اراکین میرے اساتذہ بنے، جنہوں نے مجھے ہر پل سراہا اور اسطرح سراہا کہ آج میں ادنی سی لکھاری ہوں جو بھی ٹوٹا پھوٹا کچھ لکھنے کے لائق ہوئی وہ اہل دستک کی محبتوں کی وجہ سے جن میں قابل ذکر نام عمران عجمی،صاحب کپور، حامد المجید،شبانہ اسلم،ذیشان خان لالااورعبدالرحمن عاظمی جو میرے سب سے پہلے استاد ہیں۔ان سب نے قدم قدم پہ حوصلہ افزائی کی میری جس کے لئے میں شکریہ ادا نہیں کرتی ہاں دل سے دعائیں ضرور کرتی ہوں اس سب کے لئے۔

ان سب میں اہم کردار رہا ملازم حسین ساقی کا جو مجھے سوچ کے سفر میں لے کے آئے زندگی بھر میں ممنون رہوں گی، انکی کیونکہ ان کی مہربانی ہی تھی جو آج اس مکتب سے استفادہ حاصل کرسکی۔آصف مجید،زری شہوار نے بہت ساتھ دیا میرا دستک کو مینج کرنے میں ان سب کی محبتیں تھیں اور ہیں جو بے لوث خدمات انجام دیں ان کے لئیے دعا گو رہونگی ہمیشہ۔ اس گزرتے سال میں مجھے ایک خطاب ملا جس کی شاید میں حقدار نہیں تھی اس وقت لیکن جب میں کوئی کام اپنے ذمہ لیتی ہوں تو پوری ذمہ داری کے ساتھ نبھاتی ہوں۔

وہ اعزاز مجھے کشمیر رائٹر فورم کے چیف ایگزیکٹو کا۔سررشید احمد نعیم صاحب نے دیا یہ اعزاز، جنہوں نے مجھے اپنی تنظیم کے ساتھ جوڑا اور نو آموز لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کا بیڑہ سر رشید احمد نعیم کے ساتھ ساتھ میں نے بھی اٹھایا اور کسی حد تک کامیاب بھی رہی۔

اللہ نے بہت عزت دی سر رشید احمد نعیم کی محبتوں کی مقروض ہوں کہ انہوں نے مجھ پہ بھروسہ کرتے ہوئے ہر قدم پہ سکھایا۔ اللہ کا لاکھ احسان ہے کہ مجھے ایف بی سے بہت پرخلوص رشتے ملے۔کئی سندیں مجھے تبصرہ نگاری میں حاصل ہوئیں جو میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی تھی کئی افسانوں۔ کہانیوں پہ بطورِ انعام مجھے کتابیں تحفے میں ملیں۔اسی سال میرا افسانہ” شام ڈھلے “ انٹرنیشنل ماہنامہ ‘ خواب دریچے میں شامل ہوا میری دوسری کاوش تھی اور مجھے پسند بھی ہے۔

اس سال میں نے باقاعدہ نظمیں لکھنے کا آغاز کیا اور ماشاء اللہ ٹوٹی پھوٹی 40 کے قریب نظمیں لکھیں جس کا یقین مجھے خود بھی نہیں آتا۔سر بی اے ندیم کو میں نہیں بھلا سکتی انکا ذکر نہ ہو تو یہ زیادتی ہوگی جو اکثر و بیشتر مجھے سمجھاتے رہے کہاں نظم میں کمی رہی کہاں بے ربطگی رہی مشکور ہوں ایسی تمام ہستیوں کی جنھوں نے میری ہرجگہ مدد کی میرا ادبی سفر محترم سر امام جیسی شخصیت کے زیر سایہ رواں دواں ہے، سر کی محبت شفقت انکی تحریر تبصروں سے بہت سیکھا میں نے، فیضان احمد فیضی ایک ایسی شخصیت ہیں جن کے پاس ادب کاخزانہ موجود ہے، انھوں نے بھی مجھے کافی کچھ سکھایا۔انتظامیہ میں میری تمام فرینڈز بہت محبت عزت دیتی ہیں چاہے،سعدیہ ادریس صاحبہ ہوں یا بی بی سیدہ یا اسماء حجاب،رباب فاطمہ میری بہترین فرینڈ زبھی ہیں جو ہر قدم پہ میرا ساتھ نبھارہی ہیں ماشاء اللہ۔

جواب چھوڑ دیں