سچ

جس طرح دیکھا جائے،جس طرح سنا جائے اس کو بالکل اسی طرح بیان کرنا یا تحریر کرنااس کو سچ کہتے ہیں ۔اس لفظ کی ضد ہے جھوٹ،یعنی انسان خلاف حق بولے، خلاف حق سنائے اور دکھائے،عربی میں سچ کے لیےصدق اور جھوٹ کے لیے کذب کا لفظ بولا جاتا ہے۔

 یہ ایسی صفت ہے جو کہ نہایت اہم ہے اس کا تعلق انسان کی انفرادی اور اجتماعی  زندگی سے ہے۔

آج تک کوئی ایسا فرد اور معاشرہ نہیں پایا گیا کہ جہاں جھوٹ کو سراہا جاتا ہوں اور سچ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہوں انسانی ضمیر نے ہمیشہ اس کو بہترین صفت قرار دیا ہے حتٰی کہ جس انسان کی زندگی اور معاشرے میں سچ نہ بھی ہو تو وہ بھی اس کو ایک فعل قبیح ہی کہے گا۔

حضورؐ نے فرمایا کہ” مسلمان ہر گناہ  کر سکتاہے مگر جھوٹ نہیں بول سکتا” آج کل کا زیادہ تر یہ مشاہدہ بتاتاہے کہ مسلمان معاشرہ اس صفت زریں سے خالی ہے ، چاہے عوام ہویا حکمران ہر ایک دھڑلے سے جھوٹ بول رہاہے۔  ایک محاورہ ہے کہ مچھلی منہ کی طرف سے سڑتی ہے۔جب حکمران اس دھڑلے سے جھوٹ بولیں گے تو ان کی دیکھا دیکھی کچھ نہ کچھ عوام بھی جھوٹ بولیں گے۔مگر جہاں یہ حقیقت ہے کہ یہ بیماری بڑی تیزی کے ساتھ پھیل گئی ہے وہا ں اس کی تباہ کاری بھی مسلم معاشرہ بھگت رہاہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ اس کی تباہ کاری سے نہیں بچ سکا۔

 ہمارےیہاں قرآن وحدیث اور اسلاف کے سچ کے بولنے کے واقعات سنائے جاتے ہیں جو کہ سنانے بھی چاہیئیں۔ علماء اکرام اپنا فرض جانتے ہوئےاسے اپنی خطبوں کا موضوع بناتے ہیں۔ تاکہ اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائیں۔

ایسا بھی نہیں کہ سچ بولنے اور سچ لکھنے والے مسلم معاشرے سے بالکل ختم ہوگئے ہیں۔

مسئلہ یہ ہےکہ جھوٹ بولنے والوں کا اتنا غلبہ ہے کہ انھوں نے سچ بولنے والوں کو نکو بنادیا ہے۔  پہلے جھوٹ بولتے ہوئے لوگ شرماتے اور ہچکچاتے تھے اب ان کے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی۔

بات تو سالوں پرانی ہے کہ ایک سابق صدر سے جب ان کے کسی بیان کے بارے میں جھوٹ اور غلط بیانی کا کہا تو موصوف نے برجستہ کہا کہ بھئی میری بات ہے کوئی قرآن وحدیث تو نہیں!بات تو بہت بڑی ہے مگر صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منہ سے نکلی ہوئی بات اس کا عالمی تاثر ذرا اندازہ کیجیے۔۔۔۔

چند سالوں پرانی بات مگر آج یہ مشاہدہ تو آئے روز ہی ہوجاتا ہے اور غضب خدا کا اب تو یہ کہا جاتا ہے کہ اگر سیاست دان یوٹرن نہ لے سکے تو اچھا سیاست دان نہیں بن سکتاہے گویا گاہے بہ گاہے جھوٹ۔۔۔ اگر وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کے بیانات کی تفصیل لکھی جائے تو ایک اچھی خاصی لطیفوں کی کتاب لکھی جا سکتی ہے۔

سناہے کہ کچھ ممالک اپنے یہاں اسکول کی سطح پر بچوں کو سچ بولنے کے حوالے سے تربیت کا انتظام کرتےہیں کہ جہاں بچوں میں سچ بولنے کی صلاحیت پروان چڑھ سکے اس کے بڑے فوائد سامنے آرہے ہیں۔ وہاں معاشرے میں ایک فرد دوسرے سے اطمینان کی حالت میں ہے کہ دوسرا فریق غلط بیانی کرکے اس کو دھوکہ نہیں دے گا۔

سچ بولنے سے انسانی زندگی پر بڑے گہرے اور دورس نتائج سامنے آتےہیں۔ اس سے معاشرے میں امن قائم ہواکرتاہے۔ انسانوں کا اعتماد ایک دوسرے پر قائم ہوتاہے۔جس سے انسان ذہنی طور پر اپنے آپکو پرسکون پاتاہے۔گھر بھی اور معاشرہ جنت کا نمونہ بنتاہے۔

ایک بار ایک شخص جضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا  اور عرض کیا کہ وہ چوری، شراب نوشی اور ایسی ہی کئی برائیوں کی عادت میں مبتلا ہے، سرور دوعالمؐ نے اس کو صرف جھوٹ چھوڑنے اور سچ بولنے کی تلقین فرمائی کچھ دنوں کے بعد جب ملاقات ہوئی تو وہ تمام قبیح اعمال سے چھٹکارا حاصل کرچکا تھا،  جن میں وہ مبتلا تھا سوچئے کہ بہت ساری اخلاقی بیماریاں اور علاج۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فقط سچ بولنے سےجس سے دنیا بھی جنت نظیر بن سکتی ہے اور آخرت میں جنت۔

آئے یہ صفت اپنے اندر پیدا کریں ۔ ۔ ۔  اللہ سے دعا کے ساتھ کیونکہ ساری نیکیاں اور خیر کے دروازے اللہ کی توفیق سے کھلتے ہیں۔ اپنے گھر کے آنگن میں ننھے ننھے پھولوں کی سچ کی خوشبو بکھیرکر تربیت کریں۔

جس جگہ رہئے جہاں بھی جائیے 

سچے لفظوں کی مہک پھیلائیے

جواب چھوڑ دیں