سال نو میں رب کے حضور بخشش

جب ہم گریجویشن میں تھےتو ایک نظم ہمارے انگریزی کے نصاب میں شامل تھی جس کا نام تھا نئے سال کا عہد۔ اس وقت ہمارا کام بس انگریزی کو رٹا مارنا ہوتا تھا سو بغیر غوروفکر کیئے رٹا مارے چلے جاتے تھے۔ لیکن ہر سال کے اختتام پر اس نظم کے الفاظ ضرور یاد آتے تھے۔ محسوس ہوتا تھا کہ نئے سال کا اتنا حق تو بنتا ہے کہ اس پر کوئی اچھا سا عہد خود سے کیا جائے تاکہ گزرتے وقت کے بارے میں احساس زیاں کم ہو۔

نیو ایئر کا جشن منانے اور مبارکبادیں دینے سے کچھ گھنٹے موج مستی میں تو گزر جاتے ہیں لیکن جو چیز آپ کی روح کو سکون دیتی ہے وہ یہی ہے کہ ہر سال کے اختتام اور نئے سال کے آغاز پر کچھ وقت اپنے ساتھ خاموشی سے گزاریں۔ آپ 365 دنوں میں کیا کر آئے ہیں۔ کتنی ندامتیں اور کتنی راحتیں آپ کے دامن سے لپٹی ہیں اس کا کچھ حساب کتاب تو کریں۔ کچھ سودوزیاں کا اندازہ تو ہو۔

اب راحتوں پر کلمہ شکر ادا کر کے ندامتوں کا معائنہ شروع کریں۔ ایک بات تو طے ہے کہ انسان جتنی اچھی طرح خود کو جانتا اور سمجھتا ہے کوئی دوسرا نہیں جانتا۔ بس ہم گڑبڑ یہ کرتے ہیں کہ خود کے ساتھ غیر جانبدار نہیں رہتے۔ ذرا سا honest ہو جائیں تو جان جائیں گے کہ خالق کے کتنے گنہگار اور مخلوق کے کتنے مقروض ہو چکے ہیں۔

گزری ہوئی غلطیوں کو سدھارنےکے لیئے ان کو تسلیم کرلیں تو بہت خوب ہوگا۔ اس کے بعد سجدے میں جا پڑیں۔ معافی مانگیں اور مانگتے رہیں۔ سب کے سب قصوروں پر۔ پروردگار کے خزانے معمولی تو نہیں کہ کم پڑ جائیں گے۔

معافی بھی بے حساب ہے اور محبت بھی بےشمار ہے ہمارے رزاق کے پاس۔ مگر دل میں ہر وقت یہ احساس رہے کہ معافی تبھی ملے گی جب ندامت اصل ہو گی۔

اب آ جائیں نئے سال کے عزم کی طرف۔ ہم جتنے رشتوں میں بھی بندھے ہیں چاہے وہ رب اور بندے کا ہے چاہے والدین اور اولاد کا، بہنوں اور بھائیوں کا، دوستوں اور پڑوسیوں کا یا ازدواجی رشتے۔ ان سب میں آپ کیسے بہترین پرفارم کر سکتے ہیں ؟

اس کے لیئے کچھ وعدے خود سے کر لیں۔ عزم کر لیں کہ رب کو بھی راضی رکھنا ہے اور بندوں کو بھی کوئی تکلیف نہیں پہنچانی ۔ گزشتہ تجربات اور آنے والے وقت کی اچھی امید دونوں کا دامن تھامیں رکھیں۔ کوشش کریں کہ ایک کاغذ سامنے رکھ کر یہ سارا کام کریں اور اس کاغذ کو بعد میں نکال کر کبھی کبھی دیکھ بھی لیا کریں۔ عہد تازہ ہوتا رہے گا۔

انسان سے کوشش ہی کا مطالبہ ہے۔ وہ اسی کا مکلف ہے ۔ نتائج نہ کبھی اس کے کنٹرول میں تھے نہ کبھی ہوں گے۔ بس اتنا یاد رکھیں کہ نیت اور محنت کو پھل لگانے والے کا علم اور مشاہدہ کائنات کی ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس احساس کے ساتھ جئیں۔ ہر لمحہ خود کو سنواریں۔ ایسا کریں گےتو بھلا ہر سال پچھلے سال سے بہتر کیوں نہ ہو گا؟؟؟

جواب چھوڑ دیں