نئے سال کی آمد اوراس کا پیغام

سال 2019 کا اختتام ہونے کے ساتھ نئے سال کی آمد ہے گزشتہ سال اپنے ساتھ بہت سی خوشیاں، بہت سے غم لے کر رخصت ہو رہا ہے ۔بہت سے نئے مسائل اورنئی آزمائشیں ہمارے لیے چھوڑ کر جارہا ہے، نیا سال نئی امیدیں نئے امکانات لئے طلوع ہونے کوہےہم نے پچھلے سال کیا کھویا کیا پایا اوراب کیا کرنا ہے اسی سوچ اور نئے عزم وامید کے ساتھ نئے سال کا آغاز کرنے والے ہیں، یہی زندگی کا سلسلہ ہے جو شروع سے جاری ساری ہے۔

 قرآن مجید اس سلسلے میں یہ رہنمائی دیتا ہے کہ تم میں سے ہر شخص دیکھے کہ اس نے آئندہ کے لئے کیا سامان کیا ہے؟ یعنی آخر ت کو پیش نظر رکھنا ہی بالغ نظری اور عقل مندی کی بنیاد ہے، کھیل تماشوں میں پڑنے کی بجائے اپنے انجام کی فکر کرنا،  عاقبت اندیشی سے کام لینا ہی وقت کا اہم تقاضا ہے، اپنے مال ،اپنی صلاحیتوں کو صحیح جگہ لگانا دانش مندی ہے،

نئے سال کی آمد پر یورپ میں خاص اہتمام کیا جاتا ہے ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کے ساتھ تقاریب کا اہتمام عام ہے یورپ کی تقلید میں ہمارے ہاں بھی یہ رواج آگیا ہے ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کے ساتھ تقاریب کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔

دوست احباب کو مدعو کرکے ان کے ہمراہ نئے سال کو خاص طور پر خوش آمدید کہنا غیر اسلامی طرز عمل ہے، کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے؟ کہ بے مقصد تقاریب میں اپنی محنت کی کمائی لٹائیں، اسراف اور دکھاوا کریں خدائی احکام کی خلاف ورزی کریں، پھر  جبکہ یہ کام  غیر مسلم کرتے ہیں۔

آج صورتحال یہ ہے کہ  ہم اپنے دین کو چھوڑ کر نام نہاد ترقی کے حصول کے لیے غیر مسلموں کی پیروی کر رہے ہیں، مادہ پرستی کے اس دور میں پیسے کو اپنی منزل بنا کر اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال دیا ہے، اگر انھیں پسند نہیں بھی کرتے تو ٹھنڈےدل سے برداشت کیے چلے جارہے ہیں، نتیجےمیں برائی رفتہ رفتہ معاشرے میں جڑ پکڑتی جا رہی ہے، آج یورپ اور امریکا کی ترقی نے ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے ،یہ سوچے سمجھے بغیر کہ وہ صحیح کررہے ہیں یا غلط ہم اندھا دھند ان کے پیچھے بھاگتے چلے جا رہے ہیں ،کئی لوگوں نے تو دنیا کے ساتھ چلنے کو اپنا دیں ایمان بنا رکھا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےغیر اقوام کی مشابہت سے منع فرمایا ہے انکی تعلیمات کو فراموش کر دینا آج ہمارے لیے باعث شرم اور ذلت ہے اسی وجہ سے ہمراہ راست  گم کر بیٹھے ہیں، اپنی شناخت اور پہچان بھول کر غیر مسلموں کی پیروی کر رہے ہیں ۔

نئے سال کو منانےکے رنگ ڈھنگ ،آتش بازی، ہلہ گلہ ،پارٹیاں ،مبارکبادیں یہ سب یورپی اقدار ہیں جن کی بنیاد لادینیت ،نفس پرستی اور عاقبت نااندیشی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں ان کی کوئی گنجائش نہیں ہے آج خدافراموشی کے عالم میں  ہمیں اپنے نفع و نقصان کا بھی احساس نہیں رہا ۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں صرف مالی فوائد حاصل کرنے کے لئیے ہیپی نیو ایئر اور ویلنٹائن ڈے جیسی خرافات کو رواج دے رہی ہیں،انھیں روکنےکی بجائے بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لیے اخلاقی دیوالیہ پن کی طرف جارہے ہیں۔

آج ہماری نئی نسل اپنی اقدار و روایات سے دور ہوتی  چلی جارہی ہے الیکٹرانک میڈیا کے غلط اثرات انھیں اسلامی تعلیمات سے دور کرکے تباہی کی طرف لے جارہے ہیں، ایسے میں بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے دین سے راہنمائی حاصل کریں اور اپنی نئی نسل کو نئے دور کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کریں۔

جواب چھوڑ دیں