قرار داد سال نو

یہ سال بھی اداس رہا گزر گیا

اس سے ملے بغیر دسمبر گزر گیا

گردشِ علی الدوام دائمی و ابدی ہونے کی بنا پر ہمیں سبق فراہم کرتی ہے کہ اگر دنیا میں اپنا کوئی نام و مقام بنانا ہے تو اپنے اندر موجود صلاحیتوں کواستعمال میں لائیں،کیونکہ چلنے کا نام ہی زندگی ہے ، یاد رکھئے کہ وقت رک جائے تو قیامت برپا ہو جاتی ہے انسان اگر ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے تو قوموں کا مستقبل خطرے میں پڑجاتا ہے۔دنیا میں وہی قومیں پنپتی اوراوجِ ثریا تک پہنچتی ہیں جو وقت کو اپنے ہاتھ میں قید کر لیتی ہیں، ایسی قومیں وقت کی نبض پر ایسے ہاتھ رکھتی ہیں کہ وہ جب چاہیں وقت کے پہیے کو گھما دیں، جب چاہیں روک لیں۔

لیکن وقت کو اپنے ہاتھ میں کرنے کا ایک ہی فارمولا ہے کہ محنت سے وقت کا مقابلہ کیا جائے،وقت کو نہیں بلکہ آپ وقت کو لے کر چلیں۔پھر دیکھئے دنیا کیسے آپ کے ساتھ چلنےکو ترستی ہے۔ لیکن میرے ملک میں تو وقت کا پہیہ ہی الٹا گھومتا ہے۔ جس کو دیکھو دسمبر کی سردی کو ہی کوسے جا رہا ہے کہ دسمبر گزر جائے تو وہ بھی کسی کام پہ جائے جبکہ ترقی یافتہ قومیں دسمبر کے آتے ہی اس بات پہ خوش ہو رہے ہوتے ہیں کہ ایک سال گزر گیا، اب ہمیں نئے سال کی آمداور سالِ گذشتہ کے تجزیہ کا ایک اور موقع مل جائے گا،ہمیں اپنی پرانی غلطیوں سے سیکھنے کا ایک اور موقع مل جائے گا۔لیکن کیا ہم ایساسوچتے ہیں؟

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی یونہی تمام ہوتی ہے۔

من حیث القوم کبھی ہم نے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ ہمارا آج گزرے ہوئے کل سے کیوں بہتر نہیں ہے۔گزرے ہوئے ماہ و سال کی نسبت سال ِآئندہ کیسے بہتر بنائے جا سکتے ہیں۔ہم نے تو بس ایک وطیرہ بنا لیا ہوا کہ ایک بھائی اگر بیرونِ ملک بسلسلہ روزگار چلا گیا تو باقی سب جو پاکستان میں رہائش پذیر ہونگے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ لیتے ہیں کہ بس اب ہمیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ بھائی باہر کے ملک ہوتا ہے تو ہم کیوں کام کریں؟ یقیناً ایسی سوچ کے متحمل افراد کیسے ملکی معاشی و معاشرتی ترقی کا باعث بن سکتے ہیں۔

یہ سب ممکن ہو سکتا ہے اگر ہم ہر نئے سال کی ابتدا ہی سے ایک قرار داد بنا کر اپنی سوچ و فکر کو اس کے تابع کر کے ممکنہ اہداف کے حصول کو ممکن بنا لیں۔مثال کے طور پر سال نو کی آمد آمد ہے تو ہمیں اس سے قبل ہی چند گزارشات ،سوچ،فکر اور اخلاقیات کو ایک قرارداد کی صورت میں ایک ڈائری میں لکھ لینی چاہئے اور پھر سال کے 365 دن عمل پیرائی میں گزارنے کی مکمل سعی کرنی چاہئے ۔جیسے کہ میرے ذہن میں بیدار ہونے والی قرارداد کے چند کلمات جو حدیث شریف کے کلمات ہیں!

٭ جب بھی کسی سے بات کرو تو سچ بولو

٭ کسی سے وعدہ کرو تو وعدہ خلافی نہ کرو

٭ کوئی امانت رکھوائے تو اس میں خیانت نہ کرو

٭ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھو

٭ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو

٭ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو

لہذا اگر ہم بہت زیادہ نہیں کر سکتے تو کم سے کم ایک حدیث پر عمل پیرا ہو کر بھی ایک مثالی معاشرہ کی تشکیل میں ممد و معاون ہو سکتے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ چند عزائم کو بھی اگر اپنی شخصیت کا خاصہ بنا لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم دنیا کی مہذب ،شائستہ اور اخلاق یافتہ قوم بن جائیں۔ یعنی اپنے منفی رویوں کو مثبت سوچ و فکر میں تبدیل کر کے،خود احتسابی اعمالِ حسنہ اور اخلاقِ شائستہ سے،دشمن کی دشمنی کو بھول کر محبت سے پیش آ نے سے،اپنے وقت کو قیمتی بناتے ہوئے انظباطِ وقت پر عمل پیرائی سے،بلا تعصب و نفرت کسی کے کام آ کر،اور سب سے اہم بات کہ ہر کسی سے مسکراتے ہوئے خندہ پیشانی سے ملنے سے پورے معاشرہ میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ایک حدیث شریف میں ہے کہ صدقہ کرو خواہ ایک مسکراہٹ ہی کیوں نہ ہو۔ تو کیوں نا نئے سال کے طلوع ہونے والے آفتاب کہ پہلی کرنوں کے ساتھ ساتھ ہم بھی مسکراتے چہروں ، اپنے دکھوں ، پریشانیوں کو بھول کر دوسروں کے دکھوں کا مداوا کریںاور ایک مثالی سماج کی خشتِ اول بن کر خوشحال ،پر امن،صحت مند،مثبت اور کامیاب معاشرہ کی بنیاد رکھیں۔اور ہو سکے تو اپنی اپنی قرارداد میں تین باتوں کو ضرور شامل کریں۔۔صبر،شکر اور شکریہ۔

اس کی مثال کے لئے مولانا روم کا ایک واقعہ یاد آ رہا کہ ایک بار مولا نا روم نے کسی نیک آدمی سے پوچھا کہ سنائو گزر بسر کیسے ہوتی ہے تو انہوں نے کہا کہ مل جائے تو شکر کرتے ہیں نہ ملے تو صبر، مولانا روم نے جواب دیا کہ یہ تو بغداد کے کتے بھی کرتے ہیں۔ مولانا روم سے اس بزرگ نے پوچھا تو آپ بتا دیں کہ آپ کی گزر بسر کیسے ہوتی ہے۔تو مولانا فرماتے ہیں کہ مل جائے تو صدقہ کرتے ہیں نہ ملے تو صبر نہیں شکر کرتے ہیں۔ لہذا صبر،شکر اور شکریہ کو نئے سال میں ترجیح اول میں رکھ کر ہر اس نعمت کا شکریہ ادا کرنا ہے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں