سویرا ہے ۔ ۔ ۔ کچھ دیر بعد

فاطمہ بنت قیس  ۔ ۔ ۔ سردار کی بیٹی نے چوری کی دربار نبویﷺ میں  مقدمہ پیش ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔بیٹی قبیلے کے سردار کی تھی ۔ دنیا کی اس سب سے بڑی عدالت میں صحابہ کرام بھی تشریف فرماتھے ۔  عدالت  میں صحابہ کے درمیان چے مگوئیا ں  ہوئیں   کہ سردار کی بیٹی ہے اگر اس کو سزا ہوئی تو سردار  ناراض ہوگا ۔ اسامہ بن زید  ۔ ۔ حضورؐ جن سے بڑی شفقت فرماتے  اکثر جب کسی کو کوئی سفارش کرانی ہوتی تو حضرت اسامہ بن زید کو بھیجا جاتا اس وقت بھی ایسی ہی صورت حال تھی۔ کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ اس خاتو ن کی سفارش کرسکے  ۔  فاطمہ بن قیس کی سفارش حضرت زید کے ذریعے حضورؐ تک پہنچائی گئی ۔ حضورؐ کا  چہرہ انور غصے سےسرخ ہوا آپؐ نے ارشاد فرمایا  ” تم سے پہلے جو امتیں ہلاک ہوئیں اس کی وجہ یہ تھی کہ ان میں کا کوئی طاقتور  فرد اگر جرم کرتا تو وہ سزا سے بچ جاتا اور ان کا کوئی کمزور اگر کوئی جرم کرتا اس کو سزا دی جائی ۔”پھر لب اطہر سے یہ بھی الفاظ سنے گئے کہ ” اگر اس فاطمہ بنت قیس کی جگہ فاطمہ  بنت محمدؐ بھی ہوتی تو اس کے ہاتھ بھی  میں کٹوا دیتا”۔

یہ وہ الفاظ ہیں جو کہ عدل و انصاف کی جان ہیں ان پر عمل کیے بغیر انصاف ممکن ہی نہیں۔

پاکستان کا مطلب کیا  لاالہ الااللہ ۔ ۔ ۔ ۔ بٹ کے رہے گا ہندوستان   ۔ ۔ ۔   بن کے رہے گا پاکستان یہ وہ نعرے جن کی گونج سے پور ا برصغیر جاگ رہاتھا ۔ ان علاقوں میں بھی یہی نعرے زبان زد عام تھے۔ ان کو معلوم تھا کہ ان کے علاقوں میں پاکستان نہیں بنے گا۔نعرہ صرف نعرہ نہیں تھا بلکہ ایک نظریہ حیات تھا  ۔  یہ جسم اور ذہنوں کو فتح کرنے کا باعث بنا۔ اسکے لیے پھر آگ وخون کے دریا  عبو ر کیے گئے۔

دنیا کے متعددممالک جہا ں  کی ترقیاں نگاہوں کو خیرہ کررہی ہیں،   و ہاں کی عدالتیں جاگ رہی ہیں۔ عدالت  وزیر  اعظم کے خلاف  بھی فیصلے دیتی ہے ،  عدالت چیف آف آرمی اسٹاف کے خلاف بھی فیصلے دیتی ہیں، عدالت ایک عام شہری کے خلاف  بھی فیصلے دیتی  ہے،  مگر وہاں فیصلے قبول کرنے پڑتے ہیں کیونکہ انصاف فراہم کرنے والا ادارہ سب سے بالاتر ہے۔

ہمارے یہاں عدالت کے فیصلے کے خلاف  غم غصہ پایا جاتاہے ۔ کوئی کہتا ہے کہ صدر  کو عدالت میں حاضری سے استثناء حاصل ہونا چاہیے،   کہیں سے یہ سننے کو ملتاہے کہ صدر صاحب کی  بڑی خدمات ہیں  ۔ عدالت کے فیصلے کو اگر تسلیم کرلیا جائے اور اپنے آپ کو سزا کے لئے خوش دلی سے پیش کردیا جائے  تو یہ ملک کے لیے اور اس کی سالمیت کےلیے  خطرہ ثابت ہوگی۔

کچھ دنوں   پہلے وزیر اعظم صاحب کا یہ بیان دیکھنے میں آیا  کہ اداروں کو تصادم سے گریز کرنا چاہیئے  اور معاملات کو آپس میں بیٹھ کر طے کرنا چاہیے۔ اس بیان  پر  ہر پاکستانی سوچ سکتا ہے کہ آئندہ کیا ہونے جارہا ہے ۔ اب یہ خبر بھی ہے کہ   حکومت  اس فیصلے کو چیلنج  کرنے کا  ارادہ کررہی ہے ۔

یہ سب کچھ اس تناظر میں ہو رہا  کہ جب اعلٰی عدلیہ نے سابق صدر پاکستان اور چیف آف  آرمی جرنل پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی۔  یہ  فیصلہ کوئی  دنیا کا پہلا   فیصلہ نہیں ہے، بلکہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا فیصلہ ہے کہ جب سول عدالت نے اس طرح کا فیصلہ سنایا ہے اس طرح کے فیصلے فوجی عدالتیں ماضی میں کئی بار سنا چکی ہیں۔ اس فیصلے پر عملدرآمد ہو کہ نہ ہو مگر ۔ ۔ فوجی عدالتوں کے سنائے گئے فیصلوں پر من وعن عملدرآمد ہوچکا ہے۔

گذشتہ ادوار میں احتجاج عوامی سطح پر ہوتے تھے  اور ادارے  تماشائی ہوتے تھے اور اب  ادارے ایک دوسرے  کے خلاف صف  آراءہیں۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ” معاشرہ  کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے مگر عدل وانصاف کے بغیر زندہ  نہیں رہ سکتا”۔ ماضی میں اور آج بھی پاکستان کا  ہر ادارہ  اپنی حد کے اندر رہنے کے لیے تیار نہیں  ہے،  وہ اپنے آپ کو  سب سے بڑا تصور کرتاہے۔

میرے وطن! ہم تجھ سے اور تیرے ان  فرزندوں سے بہت شرمندہ ہیں جنہوں نے  اسلامی فلاحی ریاست کے خواب دیکھے اور پھر اس کے حصول کےلیے  قربانیوں کے مشعل روشن کیے۔

ایک  ایسا  نواب جس نے  اپنی جاگیر چھوڑ دی ۔ ۔ ایک ایسا  غریب جس نے اپنی جان کا نذرانہ  دیا ۔ ۔ ۔ ایک بہن جس نے  اپنی عزت اور جان دونوں کا نذرانہ  اس وجہ سے دیا کہ وہ ملک بننے والا ہے کہ جو دنیا کے لیے مثال ہوگا۔ جس  میں اللہ کے بندے صرف اللہ کے بندے ہوں گے۔ وہاں کی عدالتیں دہلیز پر انصاف کریں گی ۔ جس میں مال دار کا مال ،  غریب  کی جان اور بہن بیٹی محفوظ ہوگی۔

 مگر  ۔ ۔ ۔ ناامیدی کفر ہے  سویرا ہے ۔ ۔ ۔  کچھ دیر بعد

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں