’’مشاعروں ‘‘کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے

ایک مشاعرے میں اسرارالحق مجازؔاپنی غزل سنا رہے تھے،محفل پورے رنگ پر تھی،سامعین کلام سننے میں محو تھے کہ اتنے میں کسی خاتون کی گود میں سے ان کا شیر خوار بچہ زور زور سے رونے لگا،اس پر مجاز نے اپنی غزل کا شعر چھوڑتے ہوئے کہا کہ

’’یہ نقشِ فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا‘‘

مشاعروں کے انعقاد کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ مشاعروں کی تاریخ ،تہذیب سے منسلک تھی،مشاعرہ میں لباس،شمع محفل،شاعری، سامعین اور ترتیب و سلیقہ کا خاص اہتمام وخیال رکھا جاتا تھا، اگر تہذیب کسی شاعرہ کا تخلص ہو تو خیال کا پیمانہ دوگنا کر دیا جاتا۔مشاعرہ کی ایک خاص ترتیب اور تہذیب یہ بھی تھی کہ کہنہ مشق شاعر کو کارنر پلاٹ کی طرح آخر تک رکھا جاتا، تاکہ انہیں دکھا کر چھوٹے ’’موٹے ‘‘شاعروں کو بھی پزیرائی مل سکے۔انہیں اس لئے بھی بٹھائے رکھا جاتا کہ سامعین کہیں اٹھ نہ جائیں بھلے بیٹھے بیٹھے دام اجل کہنہ مشق کو ہی اٹھادے۔

مشاعروں کے عدم انعقاد کو لمحہ فکریہ یا معاشرتی المیہ خیال کرتے ہوئے ایک بار میں پاکستان ایسوسی ایشن قطر کے چیئرمین سید فہیم الدین جو خود بھی دوحہ کے معروف شاعر ہیںسے ملتمس ہوا کہ شاہ جی تنظیم ،مشاعروں کا انعقاد کیوں نہیں کرواتی،تو فرمانے لگے کہ اس سے رقم،راقم اور شاعر سب برباد ہو جاتے ہیں۔غزل کا ایک مطلب عورتوں سے تنہائی میں باتیں کرنا بھی لیاجاتا ہے اس لحاظ سے تو ہر سیاستدان کو شاعر ہونا چاہئے، شاعر ، شعری رعایت میں وہ رعایت بھی لے جاتے ہیں کہ جسے نثر میں بیان کریں تو انہیں آئے روز کوڑے لگائے جائیں۔کچھ مفلس شاعر تو شعری رعایت کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ ایک سگریٹ اور پان خرید کر بھی پان والے سے تقاضا فرما رہے ہوتے ہیں کہ رعایت کیا ملے گی؟

کسی شاعر کی شاعری میں کیا کیا سقم اورسرقہ پایا جاتا ہے اس کا پتہ لگانا ہو تو اس کی بیوی کے سامنے چند اشعار کی تعریف کر دیجئے پھر دیکھئے بیوی کا کمال ِ فن کیسے بام ِ عروج تک پہنچتا ہے۔بیوی سے یاد آیا کہ ایک دوست مزاح نگار نے اپنے ایک مضمون میں مذاق ہی مذاق میں لکھ دیا کہ بیوی کی طرح شوہر کو بھی بے باک بولنے کا حق دیا جانا چاہئے،بیوی نے ایسا حق دیا کہ آج تک موصوف خاموش ہیں۔ہم نے مشورہ دیاکہ بولنے کا حق بول کر نہیں لکھ کر لینا چاہئے۔کہنے لگا ایسا بھی کیا تھا جب سے لکھ کر حق مانگا بیوی جوتی پر بھی نہیں لکھتی۔

ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ مشاعرہ میں ’’وزن دار‘‘شاعر تو چل سکتا ہے مگر ’’بے وزن غزل‘‘نہیں۔اس لئے اکثر بے وزن شاعر بھاری بھرکم ہی ہوتے ہیں۔ایسے شاعر غزل پہ نہیں وزن پر زیادہ توجہ دیتے ہیں،مشاعرہ غزل کے لئے نہیں،کھانے کے لئے پڑھتے ہیں ۔ جتنی مشق کھانے کی کرتے ہیں اس سے آدھی شاعری میں کی ہوتی تو آج کہنہ مشق شاعر ہوتے۔ ایسے شاعر سے اگر پوچھا جائے کہ آپ کو مشاعرہ پڑھنا پسند ہے یا کھانا،تو اس جواب سے سب کو لاجواب کر دیتے ہیں کہ کھانے کی وجہ سے مشاعرہ۔

سیاستدان اپنے ہائوس والی بیوی سے ناراض ہو تو پارلیمنٹ ہائوس،بیوروکریٹ کی اگر بیوی ناراض ہو تو جناب ’’کلب‘‘،اسپورٹس مین کی زوجہ اگر غصہ میں ہو تو کھلاڑی گرائونڈ میں جبکہ شاعر بیوی سے ناراضی کے بہانے کی تلاش میں رہتا ہے کہ محترمہ کب ناراض ہو ں اور مجھے مشاعرہ پڑھنے کا موقع ملے۔مشاعرہ میں دادوتحسین کی خاطر جو غزل پڑھی جائے اسے مشاعرہ کی غزل کہتے ہیں،اس لئے میرا دوست شاعر اسی مشاعرہ میں غزل سناتا ہے جس میں’’غزل‘‘اور ’’تحسین‘‘کی شمولیت لازم ہو۔اس کا کہنا ہے کہ گھر بچوں کے بنا اور مشاعرہ’’تحسین‘‘کے بغیر ادھورا رہتا ہے۔اسے گھر میں بچوں سے سکون ملتا ہے جبکہ مشاعرہ میں’’راحت‘‘سے مل کر قلبی سکون میسر ہوتا ہے۔

میرے بہت ہی پیارے شاعر دوست ایک بار بضد ہوئے کہ تازہ غزل کو دادوتحسین سے نوازنے کے لئے مشاعرہ میں ضرور تشریف لائیے گا،بصد اصرار چلا تو گیا لیکن چند اشعار کی سمع خراشی کے بعد ہی نیند نے آن گھیرا۔ مشاعرہ ختم ہوا تو دوست شاعر میرے پاس آئے اور اعتراض بھرے لہجے میں بولے ، میں نے تو تمہیں دادوتحسین اور تبصرہ کے لئے بلایا تھا اور تم ہو کہ پورے مشاعرہ میں اپنے خراٹوں سے ہال کو محظوظ کرتے رہے۔ میں نے عرض کیا، حضور اس سے بہتر داد اور اچھا تبصرہ اور کیا ہو سکتا ہے؟

شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے کا پس منظر خدا جانے کیا تھا لیکن انجمن ترقی اردو کے صدر نے کیا کہا مجھے خوب یاد ہے کہ ’’شاعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے‘‘کیونکہ سیاسی انتخابات کے بعد کسی بھی تنظیم کے لئے شاعروں کا انتخاب ہی سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ اخبارات میں میرے کالم پڑھتے پڑھتے ایک شاعر دوست نے اپنی کتاب کے لئے سخنوری کا ایک مسودہ اس عرضی کے ساتھ پیش کیا کہ اس پر میرے شعری محاسن پر اپنا قیمتی تبصرہ لکھ دیں،میں نے عرض کیا کہ میں تو شاعر نہیں ہوں،بولے اسی لئے تو تمہیں کہہ رہا ہوں۔ میں نے بہانہ بناتے ہوئے معذرت پیش کی کہ مصروفیت ایسی ہے کہ مسودہ پڑھنا دشوار ہو جائے گا اور مسودہ پڑھے بغیر کیسے لکھا جا سکتا ہے تو فوراً بولے یہ تو اور بھی اچھا ہے۔لیکن آپ کسی شاعر سے لکھوانے سے کیوں ڈرتے ہیں،بولے یہی تو ڈر ہے کہیں وہ اپنی غزلیں ہی نہ پہچان لے۔ اچھا تو کیا چوروں کی معاشرے میں کوئی پہچان نہیں ہوتی،بلکہ میرے خیال میں تو آجکل’’لچا ہی سب سے اُچا‘‘ ہوتا ہے۔ ایک دم سنجیدگی ومتانت سے کہنے لگے کہ خیالات چوری کر کے حالات بہتر بنانا کوئی جرم ہے کیا؟ اگر جرم ہے تو میں یہ جرم اس وقت تک کرتا رہوں گا جب تک حالات بہتر نہیں ہوجاتے،خیر سے ان کی اب تک دس کتابیں منصہ شہود پر آچکی ہیں، حالات یوں کے توں ہے،بلکہ اسی بات پر ان کے گھر میں اکثر تو،تو، میں ،میں ہوتی رہتی ہے۔موصوف اسی تو تکار میں دس کتب کا شاعر اور اتنے ہی بچوں کا باپ بھی بن چکاہے۔اللہ کرے ’’صرف‘‘ زورِ قلم اور زیادہ۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

1 تبصرہ

  1. I’m writing on this topic these days, casino online, but I have stopped writing because there is no reference material. Then I accidentally found your article. I can refer to a variety of materials, so I think the work I was preparing will work! Thank you for your efforts.

جواب چھوڑ دیں