کردار کشی اور رازداری کے حقوق

دنیا میں دیگر معاملات میں جدت کے ساتھ کردار کشی میں بھی جدت آگئی ہے اور اسی فضاء میں کسی کی ذاتی رازداری بھی محفوظ نہیں رہی۔سوشل میڈیا کے غلط استعمال نے شہریوں کو نفسیاتی مریض بنا رکھا ہے۔

کردار کشی بنیادی طور پر کسی کے کردار پر انگلی اٹھانے کو کہتے ہیں۔اس سے مراد کسی شخص، ادارے ، یا گروہ کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لئے اس کے بارےمیں جھوٹی افواہیں پھیلانا،الزامات عائد کرنا اور معلومات میں ہیرا پھیری کرنا وغیرہ ہے۔

زمانہ قدیم میں لوگ ذاتی رنجش یاحسد کی بنا پر کسی کی کردار کشی کیا کرتے تھے۔ جس کی حدود محض ایک محلے میں مقیم چند لوگوں تک ہوتی تھی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ کردار کشی کا دائرہ کار وسیع ہوتا چلا گیا۔لوگ زبانی کہانیاں گھڑنے لگے ،تقاریر کےذریعے چوک چراہوں میں کردار کشی کا سلسلہ کا ر بڑھنے لگا۔ باتونی لوگ اس کی آگ کو سلگانے لگے۔سلسلہ کار مزید بڑھا تو بات اشتہاروں اور خاکوں تک جا پہنچی۔ دور حاضر میں ان سب طریقوں کے ساتھ ساتھ ترمیم شدہ تصاویر اور ویڈیوز نے بھی لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں۔موجودہ دور میں سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے بھی مشہور شخصیات کی کردار کشی کا سلسلہ جاری ہے۔ سوشل میڈیا اس کا محور ہے۔

گزشتہ روز ایک مشہورگلوکار کی اہلیہ کےبارےمیں بھی جعلی ویڈیو گردش کرتی رہی۔جسے بعد ازاں ایف آئی اے نے جعلی قرار دے دیا۔ایسے ہی کئی سپر اسٹارز کی زندگیاں کردار کشی کا نشانہ بن چکی ہیں۔کردار کشی کا سلسلہ پوری دنیا کو لپیٹے ہوئے ہے۔جس کی بدولت ہر سال ہزاروں گھر اجڑ رہے ہیں، زندگیاں ختم ہو رہی ہیں، اور لوگ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ کردار کشی کے منفی نتائج معاشرے میں مزید برائیوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ کوئی بھی مذہب اور آئین کردار کشی کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام نے بغیر کسی گواہ کے کسی پر الزام عائد کرنے کوغلط حرکت قرار دیا ہے۔سورۃ نور میں اس کی تفصیل موجود ہے۔کردار کشی، ایک قسم کی بہتان تراشی ہی ہے۔اور بہتان تراشی ایک سنگین گناہ ہے۔

رازداری ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔کسی کی ذاتی زندگی میں دخل دینا قبیح عمل ہے۔دنیا بھر میں ہر مذہب ،معاشرہ اور آئین لوگوں کی رازداری کا خاص خیال رکھتا ہے۔ حتی کہ حکومت ،ایجنسیاں، اور پولیس کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بغیر اطلاعات کے کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرے۔کسی کی جاسوسی کرے، اور حرکات پر نظر رکھے۔

دیگر ممالک کی طرح جہاں جدید نظام نے لوگوں کی رازداری کو افشاں کرنے کا سلسلہ کار بڑھا دیا ہے ، وہیں پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے دوسروں کے اکائونٹ ہیک کر کے ان کی ذاتی تصاویر، میسجز اور ویڈیوز شیئر کرنا جیسے معمول کا کام بن گیا ہے۔ ہر عام و خاص اس کی زد میں ہے۔ہیکرز لوگوں سے بھاری رقوم اور دیگر ناجائز مطالبات کرتے ہیںاور مطالبات پورا نہ کرنے کی صورت میں صارفین کو معاشرے میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑھتا ہے۔ بہت سے لڑکے ،لڑکیاں، سپر اسٹارز، میڈیا پرسنز، سیاستدان، عدلیہ حتی کہ اساتذہ بھی اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔اس نہ رکنے والے سلسلے نے سینکڑوں لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے۔ متعدد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

پاکستان میں گزشتہ چند عرصے میں ایسے واقعات سامنے آ چکے ہیں جن میں سینمائوں،شاہرائوں اور دیگر سرکاری اور نجی مقامات پر لگے سی سی ٹی وی کیمروں سے بنی ویڈیوز بھی شیئر کی گئیں۔

مانتے ہیں کہ سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت جرائم روکنے اور مجرموں تک پہنچنے میں بہت مدد ملی۔ مگر ٹیکنالوجی کے غلط استعمال نے لوگوں کی زندگیاں دائو پر لگا دی ہیں۔ اگرچہ شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں نازیباحرکات موجود ہیں، تاہم اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ انہیں سوشل میڈیا پر شیئر کیا جائے۔ بلکہ ایسے عمل کو لوگوں تک پہنچائے بغیر اس پر قانونی طریقہ سے کام کیا جا سکتا ہے۔

اسی ضمن میں گزشتہ روز سے سلمان صوفی کی درخواست کو سماعت کے لئے مقرر کیا گیا۔ جس میںموقف اپنایا گیا کہ سی سی ٹی وی کی موجودگی میں لوگوں کی رازداری کو تحفظ فراہم کیا جائے اور باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔یہ اس نوعیت کی شاید پہلی درخواست ہے۔ امید ہے کہ اس درخواست کے ذریعے بہت سے معاملات کو عدالت حل کرنے میں مدد فراہم کرے گی۔

آئے روز سوشل میڈیا جیسے واٹس ایپ ،فیس بک ، اورانسٹاگرام وغیرہ پرہیکرز نت نئے سائبر حملے کر کے لوگوں کی ذاتی معلومات چوری کر کے انہیں بلیک میل کرتے ہیں۔ ایسی لاکھوں شکایات ایف آئی اے سائبر ونگ میں زیر التو ا ہیں جن پر عملدرآمد کے لئے لوگ منتظر ہیں۔پاکستان میں ایسے قوانین تو موجود ہیں تاہم ان پر جدید تقاضوں کے تحت عمل درآمد وقت کی اہم ضرورت ہے۔جس سے نہ صرف لوگوں کی زندگیاں آرام دہ ہوں گی، بلکہ بلیک میلنگ کامکروہ دھندہ بھی کم ہوگا۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں