بحثیت مسلمان ہم آج کہاں کھڑے ہیں؟

آج اگر ہم یورپ اور اپنے حالات پر ایک نظر دوڑائیں تو یہ جاننے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ یورپ والے ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ہم اُن سے ترقی میںاِتنے پیچھے رہ گئے ہیں کہ ُان جیسا بننے کے لیے ایک صدی سے زیادہ کا وقت درکار ہوگا۔اگر ہم اُن جیسے ترقی یافتہ ہوبھی جائیں تووہ اتنی دیر میں دُگنی ترقی کرچکے ہوںگے۔دیکھا جائے تو اہل یورپ کی حالت پہلے ہم سے بھی بدتر تھی۔اُنہوں نے ترقی کیسے کی؟وہ آج اتنے ترقی یافتہ کیسے ہوگئے؟ اُن کی یہ سب ترقی صرف مسلمان سائنس دانوں کی مرہون منت ہے۔ اُنہوں نے مسلمانوں کی لکھی کتابوں کا مطالعہ کیا۔اُن پر عمل کیااور اِس مقام تک پہنچے ۔

وہ لوگ آج اتنے ترقی یافتہ ہیں کہ اب اُن کا مدمقابل کوئی نہیں ہے۔آج ہمارایہ حال ہے کہ ُان کی عطاکردہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، لیکن پھر بھی ہم اُس مقام پر نہیںہیں۔کیوں؟اِس لیے کہ ہم غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔ہم صرف اپنی ہی زندگی میں اِس طرح کھوئے ہیں کہ ہمیں کسی اور کی پرواہ نہیںہے۔کام کرنا دُور کی بات ہم تو اِس بارے میں سوچتے بھی نہیں ہیں۔آج اسلامی ممالک میں پڑھی جانے والی کتابوں کا صرف پہلا باب ہی اِسلامی نام کا محتاج ہے اور باقی سب ابواب اہل یورپ کے ناموں سے بھرے پڑے ہیں۔کیوں؟آخر ہم کیا کر رہے ہیں؟اپنے لیے اور اپنے دین اسلام کے لیے جو ہمیںتدبراور تحقیق کا درس دیتا ہے۔ہم لوگوں نے اسلامی احکامات کو چھوڑ دیا ہے اور اہل یورپ آج بھی ہماری اسلامی کتاب قرآن مجیدکے نسخوں پرتحقیقات کررہے ہیں جبکہ ہم نے اِسے صرف ثواب کی حد تک رکھا ہوا ہے۔

یورپ کی سینکڑوں یونیورسٹیاں ہیںجو قرآن کے نسخوں پر غوروفکرکررہی ہیں جبکہ اسلامی ممالک میںہی اِس بات پر زور نہیں دیا جارہا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’اے لوگو!اللہ کی ر سی کو مضبوطی سے تھام لو‘‘۔لیکن ہم نے اِس رسی کو چھوڑا ہوا ہے توہم ترقی کیسے کر سکتے ہیں ۔ ایک اور مقام پر کہا گیا ہے کہ ’’اے لوگو!غوروفکر کروتمہارے لیے دن اور رات میںکھلی نشانیاں ہیں‘‘دراصل ہم اِن نشانیوں کو دیکھیں گے کیسے !ہماری تو نیند ہی پوری نہیں ہوتی،رات کوتو نیند آتی نہیںاور فجر کا وقت ہوتے ہی دنیا مافیا سے بے خبر ہوکرہم نیند کا مزہ لے رہے ہوتے ہیں۔ہم اپنے آپ کو اِتنا مصروف سمجھتے ہیں کہ ہمارے لیے پانچ فرض نمازیں ادا کرنے کے لیے وقت نہیں ہوتاجبکہ اہل یورپ کا کہنا ہے کہ مسلمانوں جیسی عبادت کرنے والاشخص کبھی بھی بیماریوں میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔یہ اہل یورپ کا غوروفکرہی تو ہے کہ اسلامی احکامات کو آج سائنسی نظریے سے درست ثابت کر رہے ہیں۔وہ لوگ ہم لوگوں سے اِتنے آگے نکل چکے ہیں کہ آج ہم دیکھیں تو ساری نئی ایجادات صرف اِنہی لوگوں کی ہیں۔

سائنس کا علم اہل یورپ نے پہلے ہم مسلمانوں سے سیکھا ہے لیکن ہم لوگوں کوکیا ہو گیا ہے کہ ہم اِن کے محتاج ہوکرہی کیوں رہ گئے ہیں؟مسلمانوں نے اِن پر ہزاروں سال حکمرانی کی ہے اورآج وہی ہم پر حکومت کررہے ہیں ۔ہم نے آزاد ملک اِسلام کے نام پر حاصل کیا تھا لیکن کیاآج اِس ملک میں اسلام کے اصول اور احکامات رائج ہیں؟ نہیں، اِس کا قصور وار کون ہے؟ ہمارے ذہنوں پر اِنہی لوگوں کی سوچ اور رسم و رواج مسلط ہیں۔ہم لوگ اِن کے غلام بنتے جارہے ہیں۔ہماری پہچان ختم ہورہی ہے لیکن اس بات کا کسی کو احساس نہیں ہے۔میں اپنے تمام اسلامی بھائیوں سے اور اہل وطن سے پوچھتا ہوں کہ ہمیں آخر ہوکیا گیا ہے ۔؟ہماری سوچنے کی صلاحتیں کیوں ختم ہوگئی ہیں؟ ہم میں بھی وہ سب صلاحیتیں موجود ہیں لیکن ہم اُن کو بروئے کار کیوں نہیں لاتے ہیں۔آئیں !آرام کو چھوڑواوراسلامی احکامات پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔ غوروفکر کا اِیسا طوفان لائیں کہ اہل یورپ تو کیاپوری دنیا پکار اُٹھے کہ ترقی ہوتو ایسے اور کہہ دیں کہ ہم مسلمان کے کل بھی محتاج تھے اور آج بھی ہیں۔آئیں اور دکھادیں کہ ہم کسی سے کم نہیں۔آئیں محنت ،لگن اورایمانداری سے کام کریں۔اپنے دین اور ملک کا نام روشن کرنے کا عہد کریں اور دنیا پر پھر سے غالب آجائیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں