” اک اور دریا ”؎

وہ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد کراچی آیا تھا۔  اس کے والد وہاں سرکاری دفتر میں ملازم تھے۔ زندگی سکون سے گزر رہی تھی۔ وہ ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ،کسی چیز کی کوئی کمی نہیں تھی، اپنا گھر، اپنی گاڑی اور زندگی کی تمام آسائشیں میسر تھیں۔ وہ چوں کہ اکلوتا تھا اس لیے والدین کی ساری توجہ کا مرکز تھا۔ اچانک صورت حال تبدیل ہو گئی اور وہاں آزادی کی تحریک نے زور پکڑنا شروع کر دیا، بہت سارے لوگ مارے گئے اور غیر بنگالیوں کے لیے جینا عذاب ہو گیا، انہیں چن چن کر مارا جانے لگا۔ وہ اپنی جان بچانے  کے لیے چھپتے پھر رہے تھے۔اس کے والد نے بھی دور دراز علاقے میں پناہ لی۔ لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد پاکستان کے ٹکرے ہو گئے اور بنگلہ دیش آزاد ہو گیا۔ اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ وہ لوگ کسی طرح پاکستان پہنچ جائیں۔ انہوں نے ایک ایجنٹ کے ذریعہ سرحد پار کی، ہندوستان پہنچے، وہاں سے نیپال اور بالآ خر پاکستان پہنچ گئے۔ وہ اس وقت بہت چھوٹا تھا بمشکل پانچ سال کی عمر ہوگی اس کی ۔ یہ سارے واقعات اس نے اپنے والد سے سنے تھے۔

پاکستان پہنچ کر اس کے والد کو سرکاری نوکری پر بحال کردیا گیا اور زندگی ایک دفع پھر معمول پر آنے لگی لیکن قدرت کو شاید اس کا ایک اور امتحان مقصود تھا۔ چند ہی سالوں کے بعد اس کے والد اچانک بیمار پڑے اور پھر جانبر نہ ہو سکے۔ دنیا ایک بار پھر اس کی نظروں میں تاریک ہو گئی۔ وہ اس وقت آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ باپ کے انتقال کے بعد سرکاری گھر خالی کرنا پڑا اور اس کی ماں اسے لے کر ایک دور افتادہ بستی میں رہائش پزیر ہو گئی۔ والد کے انتقال پر جو پیسے ملے تھے وہ کافی نہیں تھے کہ وہ اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کر سکے اور گھر کے اخراجات بھی پورے ہوتے رہیں۔ اس کی ماں نے اسے ایک سرکاری اسکول میں داخل کرا دیا اور زندگی کی گاڑی دھیمی رفتار سے چلنے لگی۔

 اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ اس کے معصوم سے ذہن میں یہ خواہش انگڑائیاں لیتی کہ وہ پڑھ لکھ کر ایک بڑا افسر بنے گا، لیکن زمینی حقائق کچھ اور تھے۔ وہ جن سہولتوں کا عادی تھا، اسے میسر نہیں تھیں۔ اس کا کچا ذہن خود ترسی کا شکار ہو نے لگا۔ اس کی شخصیت میں منفی تاثر نمایاں رہنے لگا۔ پڑھائی میں اس کا دل نہ لگتا اور دوسرے بچوں کی طرح وہ کسی کھیل یا کوئی اور تفریح میں حصہ نہ لیتا۔ اس کی ماں اس صورت حال سے پریشان ہو گئی، اسے بہت سمجھایا لیکن کوئی فرق نہ  پڑا۔ بڑی مشکلوں سے اس نے میٹرک پاس کیا اور آگے پڑھنے سے انکار کر دیا۔ ماں، جس کی ساری امیدیں اسی سے وابستہ تھیں، اس صورت حال کو برداشت نہ کر سکی، شدید بیمار ہوئی اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ ماں کی موت نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا، اسے اپنی زندگی بے مقصد لگنے لگی اور دنیا سے اس کا دل اچاٹ ہو گیا۔

اب اس کا سارا وقت محلے کے ناکارہ لڑکوں کے ساتھ گزرنے لگا، جو پیسے تھے وہ ماں کے علاج اور روز مرہ کے اخراجات میں قریباً ختم ہو چکے تھے، اس کا ویسے بھی کوئی خرچ نہیں تھا، نہ اسے کھانے کی پروا ہوتی اور نہ کسی اور چیز کی، سارا وقت آوارہ لڑکوں کے ساتھ گزرتا تھا۔ اسی طرح تین سال گزر گئے، اچانک ایک دن محلے میں پولیس آئی اور اس کے کئی ساتھیوں کو پکڑ کر لے گئی جو چھوٹی موٹی وارداتوں میں پولیس کو مطلوب تھے۔ اس سے بھی پوچھ گچھ ہوئی لیکن محلے کے لوگوں نے اس کی شرافت کی گواہی دی تو وہ بچ گیا۔ اس رات جب وہ سونے کے لیے لیٹا تو اس کی عجیب سی کیفیت تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ خواب غفلت سے بیدار ہو گیا ہو۔ اسے اپنا آپ بہت چھوٹا لگنے لگا، وہ کیا کر رہا تھا؟ کیا اس کی زندگی کا یہی مقصد تھا؟ وہ اپنے والدین کی روح سے شرمسار ہونے لگا۔ اسے اپنے وجود سے گھن آنے لگی۔ اور پھر اس نے اپنے آپ سے عہد کیا کہ وہ زندگی میں کچھ بن کر اپنے والدین کی روح کو خوش کرے گا، جو ہمیشہ اپنے بیٹے کے روشن مستقبل کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔

دوسرے دن وہ کالج گیا جہاں بڑی مشکلوں سے اسے داخلہ ملا۔ پھر اسے فکر معاش ستانے لگی۔ محلے کے ایک بزرگ نے اپنے کسی جاننے والے کی دوکان پر اسے ملازمت دلوادی۔ وہاں سے اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ دن بھر دوکان میں کام کرتا، رات میں کالج جاتا۔ اسی طرح اس نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ اس کی محنت رنگ لائی اور اس نے اکنامکس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر لی۔ اس نے اچھی ملازمت کے لیے بھاگ دوڑ شروع کی اور بالآخر قسمت کی دیوی اس پر مہربان ہوئی اور اسے ایک بینک میں معقول ملازمت مل گئی۔ اب اس نے ایک متوسط علاقے میں کرائے پر مکان لے لیا۔ محلے کے جن بزرگ نے اس کی شرافت کی ضمانت دی تھی انہی کے کسی عزیز کی بیٹی سے اس کی شادی بھی ہو گئی اور یوں زندگی کافی عرصے کے بعد سکون سے گزرنے لگی۔

 اس کی بیوی بہت سمجھدار اور نیک تھی۔ اس دوران وہ تیزی سے ترقی کرتا رہا۔ شادی کے سات سال بعد وہ ایک بیٹے کا باپ بنا۔ اس کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، بیٹا اسے اپنی جان سے بھی پیارا تھا۔ جب وہ تین سال کا ہوا تو اسے ایک اچھے اسکول میں داخل کرادیا۔ زندگی میں ایک ٹھہراؤ آ گیا، اب اس کی زندگی دفتر اور اور بیوی بچوں تک محدود ہو گئی تھی۔ اچانک اس کا تبادلہ پشاور کر دیا گیا، چوں کہ اسے ترقی دے کر بھیجا جا رہا تھا اس لیے وہ بہت خوش تھا۔ ویسے بھی کراچی میں اس کا کوئی نہیں تھا، اس نے اپنے بہتر مستقبل کے لیے پشاور جانے کو ترجیح دی۔ پشاور میں اسے کوئی مشکل پیش نہیں آئی، بینک کی طرف سے اچھا گھر، گاڑی سب کچھ ملا ہوا تھا۔  بچے کا داخلہ وہاں کے بہترین اسکول میں ہو گیا۔ اب میاں اور بیوی کی زندگی کا محور ان کا بیٹا تھا۔اس کا سارا وقت بیٹے کے شاندار مستقبل کے سہانے خواب دیکھتے ہوئے گزرتا، نت نئے منصوبے بنا تا، کبھی سوچتا اسے ڈاکٹر بنائے گا، کبھی کچھ اور کبھی کچھ۔ بیٹا تھا بھی بہت ذہین۔ پڑھائی میں بھرپور دلچسپی لیتا۔ اپنے اساتذہ کا پسندیدہ طالب علم تھا۔ ہر صبح خوشی خوشی تیار ہوتا اور ڈرائیور کے ساتھ اسکول جاتا۔

آج وہ دفتر نہیں گیا تھا، صبح سے طبیعت کچھ بے چین سی تھی، عجیب طرح کی پژمردگی طاری تھا۔ ڈرائیور بیٹے کو لینے اسکول جا چکا تھا۔ طبیعت کے اضمحلال کو دور کرنے کے لیے اس نے ٹی وی کھول لیا اور پھر ایسا لگا جیسے گھر کی ساری دیواریں اس کے اوپر آ گری ہوں، اس کا دل کسی نے مٹھی میں لے کر مسل دیا ہو، اور وہ ہوا میں معلق ہو گیا ہو۔ اس کے بیٹے کے اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا تھا اور بہت سارے لڑکے مارے گئے تھے۔ وہ اپنے آپ کو گھسیٹتے ہوئے اٹھا اور کس طرح اسکول پہنچا اسے کچھ ہوش نہیں۔ وہ پاگلوں کی طرح اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہا تھا، ہر زخمی بچے کو الٹ کر دیکھتا، ہر مردہ بچے کی لاش کو سہمی ہوئی نظروں سے دیکھتا، دیوانہ وار اپنے بیٹے کو تلاش کر رہا تھا، اچانک اسے ایک جانا پہچانا سا اسکول بیگ نظر آیا اور اس کے ساتھ ہی ایک بچہ اوندھے منہ پڑا ہوا تھا جس کے ارد گرد ڈھیر سارا خون پھیلا ہوا تھا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے بچے کو سیدھا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور پھر اس کی دل خراش چیخ سے اسکول کے در و دیوار لرز اٹھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں