دسمبر اور پاکستان

لاقائی عصبیت کی بنیاد پر بننے والی طلبا تنظیمیں ہوں یا این جی اوز بیرونی خفیہ ایجنسیوں کے لئے تر نوالہ ثابت ہوتی ہیں اور کچھ محرومیوں کو بنیاد بنا کر علیحدگی کی تحریکوں کی نرسریاں بن جاتی ہیں۔

ایسے ہی علاقائی عصبیت کی بنیاد پر ماہ دسمبر کی ہمارے ساتھ کئی غمناک اور کربناک یادیں وابستہ ہیں۔ جو ہر سال ہمارے دلوں کو بہت تکلیف پہنچاتی ہیں۔ یہی دسمبر تھا جب ناقص حکومتی فیصلوں اور دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم کے ساتھ ساتھ وہ تمام بیرونی قوتیں اور دشمن جو ہمیشہ سے پاکستان کو کمزور کرنا چاہ رہے تھے اور اسی انتقام کو دل میں لئے دشمن نے بھی کیاخوب چال چلی حقوق کے نا م پر مسلمانوں کو تنکا تنکا کر دیا اور پاکستان کے مشرقی حصے میں انتقام کی آگ بھڑکانے کے ساتھ ساتھ نفرت و لاچاری کی آگ کو ہوادی، اس وقت کے حکمرانوں کو اقتدار کی بھوک و لالچ دے کر ہزاروں افراد کی قربانیوں کے ساتھ 16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے مسلمانوں کو دو حصوں میں بانٹ دیا اورکلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہونے والی اسلامی ریاست دو لخت ہو گئی یوں بنگال کے نام سے پاکستان کا ایک بازو بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پرسامنے ابھر کرآیا۔ جب کبھی کتابوں میں سقوط ڈھاکہ پڑھتے ہیں یا اخبارات کو چیختے ہوئے دیکھتے ہیں

16 دسمبر 2014 ایک بار پھر پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن بن گیا،جب تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں نے بھارت کی ایما پر افغانستان کے ساتھ مل کر سفاکیت کو ظاہر کرتے ہوئے دہشت گردوں کے ذریعے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پرحملہ کر کے معصوم بچوں کا خون بہایا اور سفاکیت کی انتہا کر دی،دہشت گردوں کے اس حملے میں اساتذہ اور بچوں سمیت 150 افراد شہید ہوئے تھے،  اس حملے نے ایک بار پھر مائوں کے جگر گوشوں کو ان سے جدا کردیا تھا اور ان کے پیاروں کوایسی تکلیف دی جو ساری عمر انہیں سسک سسک کر جھیلنا پڑے گی۔

پاکستانی قوم نے زخم پے زخم کھائے لیکن انٹرنیشنل میڈیا کے بکائو صحافی آج بھی پاکستان کا چہرہ دہشت گرد ملک کی شکل میں دیکھاتا ہے حالانکہ جتنی قربانیاں پاکستان نے دی ہیں۔ اس جنگ میں دنیا کے کسی بھی ملک نے نہیں دیں اور نہ وہ دے سکتے ہیں ۔

سانحہ بنگال ہو یا آرمی پبلک اسکول کے وہ پھول جو شہید ہوئے تھے کہیں دنیا میں ایسی قربانی دیکھا دیں یہ جو ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں؟ ایک لاکھ کے قریب عام لوگ جو اس دہشت گردی کی وجہ سے شہید ہوئے ہیں کوئی ہے جو دیکھا سکتے ہیں وہ؟ اورہمارے محافظ ہمارے وردی والے بھائی شہید ہوئے ہیں کبھی انکے بارے میں بتایا گیا ہے؟ نہیں نہ؟

پاکستان میں کبھی سنا ہو کہ کسی ہندو کو کسی عیسائی کو کسی سکھ کو مارا گیا ہو؟ یا انکی عبادت گاہ پے کسی مسلمان نے جا کر قبضہ کیا ہو؟

آئوآج شہدا کے گھر والوں کو بتائیں کہ آپ کی ان عظیم قربانیوں کا احسان تو ہم نہیں اتار سکتے لیکن انکو ہم رائیگاں بھی نہیں جانے دیں گے۔

وہ ظلم نہیں بھولے وہ شہادت نہیں بھولے

معصوم فرشتوں کی وہ عبادت نہیں بھولے

بارود کے شعلے وہ تڑپتے ہوئے بچے

ہم لوگ ابھی تک وہ قیامت نہیں بھولے

16 دسمبر پاکستان کی تاریخ میں انتہائی اہم اور سبق آموز واقعات کی یاد دلاتا ہے۔ مگر ان بزدلانا حملوں سے ہماری قوم کا عزم کبھی متزلزل ہوا اور نہ ہو گا۔آج کا دن جہاں سانحہ پشاور کے شہداء کو شاندار خراج تحسین پیش کرنے اور لواحقین سے ہمدردی کے اظہار کا موقع ہے۔ وہاں اس عہد کا تقاضا بھی کرتا ہے کہ

ہم اپنی صفیں درست کریں گے. سیاست, لسانیت, صوبائیت, اور فرقہ واریت سے خود بھی بچیں گے اور دوسروں کو بھی بچائیں گے۔ جیسے قیام پاکستان کے وقت کسی جٹ نے جٹستان، کسی آرائیں نے آرائیں آباد کی بات نہیں کی تھی نا پنجاب سے پنجابستان کی آواز آئی تھی نا کسی پٹھان، سندھی یا بلوچی نے اپنے نام سے منسوب ملک کی بات کی تھی یہاں تک کہ نہ کوئی سنی تھا نہ ہی کوئی شیعہ اور نہ کوئی وہابی تھا نہ کوئی دیو بند کسی نے بھی اپنے عقائد کی ترجیح کی بات نہیں کی تھی مذہبی و سیاسی طور پر انکی صفوں میں کسی قسم کا انتشار کی لہر نہیں تھی بلکہ یہ پیغام تھا۔

’’ہماری صف بھی ایک ہے کیونکہ ہم سب کا رب ایک ہے سب ایک نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ الہ وسلم کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں اور انہی پر نازل کتاب قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں

دشمن کے اس آخری وار کو پہلے کی طرح ایک قوم بن کر مقابلہ کریں گے اور دشمن کے ناپاک مقاصد کو ناکام بنائیں گے اس یکجہتی کی آواز سے اردگرد موجود دشمنوں کو ایک پیغام دیا جائے ہم سب اتفاق کی رسی میں آ چکے ہیںاور تاریخ میں لکھا جائے۔

سب سے پہلے اسلام اور پاکستان. . . .. .

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں