نسل نو کا مستقبل

حمزہ کر بھی کیا سکتا ہے۔۔۔۔اسکے پاس کرنے کو کچھ نہیں۔ نہ کھیل کے میدان، نہ لائبریری، نہ اسپورٹس کمپلیکس، نہ معیاری اسکول اور نہ معیاری نصاب۔

مگر یہ حمزہ ہے کون؟ روشنیوں کے شہر کراچی سے کچراچی میں تبدیل ہوتے شہرکا ہر ٹین ایج لڑکا ۔۔۔۔ اس ایج گروپ کا ہر لڑکا حمزہ ہے جسکے پاس کرنے کو کچھ نہیں۔اسکے گھر کے قریبی پارکس آہستہ آہستہ پہلے سیاسی پارٹیوں کے دفتر، پھر ہفتہ بازار اور پھر مالز میں تبدیل ہوگئے۔حمزہ کے اسکول اور کالج میں ایسا نصاب پڑھایا جاتا ہے جو پینتیس سے چالیس سال پرانا ہے۔کیونکہ اسکے ماں باپ سندھ بورڈ کے علاوہ کسی دوسرے تعلیمی بورڈ کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔صبح گورنمنٹ کالج جانے والا حمزہ اکثر فارغ رہتا ہے کیونکہ کالج میں پڑھائی برائے نام ہوتی ہے شام کو پرائیوٹ کوچنگ کے بعد راستے میں لگے ٹھیلوں سےکھانے برگر، شاورمہ، سوپ، لمکا اور فرائز کے نت نئے ذائقے سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ حمزہ کے پاس کوئی ہیلدی ایکٹیویٹی نہیں۔ اسکے گھر کے قریب بہت سے شاپنگ مالز اور فوڈکورٹ ہیں جہاں حمزہ بھی اپنی کلاس کے لوگوں کی طرح ونڈو شاپنگ کرلیتا ہے اور کبھی کبھار فوڈکورٹ سے کھانا بھی کھا لیتا ہے ۔

حمزہ کے پاس ایک عدد موبائل فون ہے جسمیں دنیا جہاں کی خرافات موجود ہے ساتھ حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کا واحد ذریعہ بھی ہے یورپ امریکہ اور بھارت کے فلمی ایکٹرز کے ہئر اسٹائل اپنانے والا حمزہ ہے۔مغربی ممالک کے ایکسٹرا آرڈنیری بچوں کے کارنامے جاننے کے بعد ان سے کڑھنے والا اور اپنا وقت کاؤنٹراسٹرائیک جیسی گیمز میں صرف کرنے والا بھی حمزہ ہے۔ نیٹ کیفے، چائے کی ہوٹل پر وقت گذارنے والا اور آدھی رات کو گھر والوں سے چھپ کر ون ویلینگ کرنے والا میرے شہر کا حمزہ ہے۔ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر سفر کرنے والا غریب حمزہ اس ملک کا سپوت جسے قدرت نے بیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے مگر اس پر براجمان جابر حکمران ہر آسائش وسہولت صرف اپر کلاس اور اپنے جیسے امیروں کا حق سمجھتے ہیں۔

اگر خوش قسمتی سے حمزہ کا داخلہ کسی اچھی گورنمنٹ یونیورسٹی میں ہوجاتا ہے تب بھی حمزہ کی قسمت تبدیل نہیں ہونی۔۔ اول تو اسے گریجویشن کے بعد روزگار نہیں ملنا۔ اور اگر خوش قسمتی سے روزگار مل بھی جاتا ہے تو پھر وہ بھی نوے فیصد پاکستانی عوام کی طرح کولھو کا بیل بن جائیگا۔ صبح کام کیلئے نکلے گا تو رات تک جاکر اسکی خلاصی ہوگی۔وہ بھی اس شہر کو ایک نیا حمزہ، ایک نئی نسل دینے میں جت جائیگا۔ جسکے پاس وہی گھسا پٹا تعلیمی نظام ہوگا ، نہ کھیل کے مواقع ، نہ اسپورٹس کمپلیکس، نہ لائبریری۔ اگر ہوگا تو ایک عدد موبائل فون۔۔۔۔۔۔۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں