پاکستانی مدارس میں منصوبہ جاتی تدریس کا عدم اطلاق،اسباب وتجاویز

روائتی،نصابی اور مروج تعلیم کی تعریف سے ہٹ کر اگر صحیح معنوں میں علم کی تعریف کی جائے تومیری رائے میں علم سے مراد انسانی رویوں میں مثبت تبدیلی ہے۔اس لئے کہ معاشرتی بگاڑ جو کہ منفی سوچ اور رویوں کی پیداوار ہے،اسے اگر مثبت تبدیلی میں دیکھنا ہے تو اس کا ایک ہی حل ہو سکتا ہے کہ انفرادی طور پر ہر فرد اپنے رویوں اور سوچ کو مثبت انداز فکر اور احساس میں بدل ڈالے،معاشرتی مسائل اور بگاڑ از خود استحکام میں تبدیل ہو جائے گا،لیکن ہمارا المیہ کیا ہے کہ جب بھی ہم معاشرتی تبدیلی کی بات کرتے ہیں اس سے مراد دوسروں کے رویوں اور اظہار میں تبدیلی ہی ہوتی ہے،مجھے راجہ انور کی ایک بات یاد آگئی کہ ہم جب بھی آزادی نسواں کی بات کرتے ہیںتو اس سے مراد دوسروں کی عورتیں ہی لی جاتی ہیں۔تعلیم کاحصول اورتدریسی عمل کا جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نہ ہونے کا فقدان اس لئے بھی ہے کہ نہ ہم فلسفہ تعلیم کی روح کو سمجھ پائے ہیں اور نہ ہی جدید طریقہ تدریس کے اطلاق کو اپنے تعلیمی اداروں میں کر پائے ہیں۔

ہمارے نظام تعلیم کی فرسودگی کی بنیادی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ اسکولوں کی سطح پر منصوبہ جاتی تدریس کا فقدان بھی ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ میری رائے میں تعلیم کو سماجی ترجیحات کی فہرست میں وہ اہمیت نہیں دی گئی جو بطور مسلمان ملک دینی چاہئے تھی کیونکہ علم مومن کی گمشدہ میراث ہے اس کے حصول کے طریقہ کار ،اہمیت اور ترجیحات کو ہم نے متعین کرنا تھا نا کہ وہ یورپی نظام جو ہمارے معاشرے،اقدار،سماجیات،رواج ورسوم کے ساتھ کسی طور بھی مطابقت نہیں رکھتا ہے۔

پاکستانی تعلیمی اداروں میں جدید نصاب،طریقہ تدریس،معاونات کے استعمال کا فقدان ہونا سب سے بڑا المیہ ہے۔ جس کے اسباب شائد اتنے بڑے نہ ہوں جتنے کہ ہمارے ملک کی سیاست اور سیاستدانوں نے بنادیئے ہیں۔ان اسباب میں سے ایک سبب منصوبہ جاتی تدریس کا عدم اطلاق بھی ہے۔بطور ایک ماہر تعلیم جب میں نے اس عمل کے عدم اطلاق کے اسباب کا جائزہ لینے کے لئے مختلف کتب کا مطالعہ کیا تو سب سے بڑی وجوہات جس سے میرا سامنا ہوا وہ اساتذہ کی تربیت کا ناقص انتظام،تعلیمی عدم دلچسپی،اساتذہ کا جدید تعلیم سے بہر ہ ور نہ ہونا وغیرہ تھیں۔دیگر اسباب میں وقت اور وسائل کی کمی،امدادی اشیا کا نہ ہونا،طلبہ کی کلاسز میں لاتعداد ہونا،ناقص منصوبہ بندی شامل تھیں۔

ایسے ہی ان تمام اسباب کے حل کی تجاویز بھی مضحکہ خیزی سے کم نہ تھیں یعنی کہ اساتذہ کو پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا احساس کروانا،اساتذہ کی جدیدتربیتی نظام کی تشکیل،اساتذہ کے ریفریشر کورسز کا اہتمام،موثر نگرانی،اساتذہ میں اخلاص کا پیدا کرنا،اساتذہ کو ترغیبات دینا،تعلیمی دورانیہ میں اضافہ،طلبہ کے داخلہ کو گنجائش کے مطابق بنانا وغیرہ شامل تھا۔

اب اگر مذکور تمام اسباب وتجاویز کا پر غور مطالعہ کیا جائے تو یوں محسوس ہوگا کہ جیسے ان تمام اسباب،پستی،عدم دلچسپی،عدم توجہی،عدم اطلاق اور تعلیمی پسماندگی کا ذمہ دار صرف ایک ہی عنصرہے اور وہ ہے استاد۔ ایسے تمام فلاسفر،تعلیمی منصوبہ بندی کرنے والوں اور اداروں پر جنہوں نے کمال ہوشیاری سے ایک معتبر،مقدم ومقدس کردار کو معاشرہ میں ایسے ذلیل ورسوا کر کے رکھ دیا کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے معاشرہ کا نالائق ترین کردار صرف اورصرف ایک استاد ہی ہے۔جسے نہ منصوبہ بندی کا ہنر آتا ہے اور نہ ہی منصوبہ جاتی تدریس کا علم ہے۔ چلئے جدید طریقہ تدریس کے ایک معان ِ تدریس سمارٹ بورڈ کو ہی لے لیتے ہیں کہ کیا عصر حاضر کے اساتذہ اس کے استعمال سے واقفیت رکھتے ہیں،اس سے بھی قبل یہ جاننا از حد ضروری ہے کہ پاکستان کے کتنے فی صدا سکولز میں سمارٹ بورڈ کا استعمال کروایا جا رہا ہے۔سچ ہے کہ روتی کیوں ہو؟اس لئے کہ پلیٹ میںکچھ نہیں،ایسا ہی حال ہمارے جدید نظام تعلیم میں منصوبہ بندی کا بھی ہے کہ ہوائی قلعے تعمیر کر کے پوچھتے ہیں بادشاہ کا سنگاسن کہاں ہے؟ظاہر ہے وہ بھی ہوا میں ہی ہوگا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ترقی کا مکمل دارومدار منصوبہ بندی پر پہ ہوتا ہے،وہ سالانہ ہو یا پانچ سالہ لیکن یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہئے کہ منصوبہ بندی کرنا اصل مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا بر وقت اطلاق اس کے بہتر نتائج کا ضامن ہوتا ہے۔ اگر کسی بھی ادارے نے منصوبہ بندی کے بروقت،بہتر اور مثبت نتائج حاصل کرنے ہوں تو اس کے لئے پابندی وقت بہت ضروری ہے۔

ہمارا مسئلہ یہی ہے کہ ہم اس سلسلہ میں اساتذہ،طلبا اورتعلیمی اداروں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں،حالانکہ ملک میں موجود حکومت کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ ہم جو منصوبہ بنا رہے ہیں اس کے لئے کتنا بجٹ مختص کر رہے ہیں اور کیا پیش کردہ بجٹ کی رقم کو بروقت منصوبہ پر لگایا جا رہا ہے کہ نہیں،پس اگر تعلیمی اداروں میں منصوبہ جاتی تدریس سے فلاحی منصوبہ جات کے اطلاق کو ممکن بنانا ہو تو حکومت وقت کو بھی اس بات کو خیال کرنا ہوگا کہ تعلیمی بجٹ کتنا مختص کیا گیا ہے؟اور اس بجٹ کا فی ا سکول کتنے فیصد دیا جا رہا ہے اور اس ادارے کی ترجیحات اورمسائل کیا ہیں؟ خالی ڈھنڈورا پیٹنے سے ڈھول کی آواز ہی سنائی دے گی اور کچھ نہیں۔حکومت کو یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ خشک کنوئوں سے آوازیں ہی آیا کرتی ہیں پانی نہیں۔اب یہ فیصلہ حکومت کو کرناہے کہ علم کے پانی سے نسل نو کی پیاس بجھانی ہے یا خالی کنویں کی آواز سے ان کی سماعتوں کو محظوظ کرنا ہے؟

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

2 تبصرے

جواب چھوڑ دیں