آئیڈلزم کا شکار لڑکیاں

یہ اس کا آٹھواں رشتہ تھا جسے اس نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ لڑکے کا قد چھوٹا ہے۔ اسے کہانیوں میں بیان کردہ چھ فٹ ہائیٹ والے کسی ہیرو کی تلاش تھی جو ہر طرح سے مکمل ہو۔ چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد ہو، گوری رنگت ہو، گاڑی بنگلہ بینک بیلنس ہو، وہ لڑکا جو اسے کسی ناول کی ہیروئن کی طرح پلکوں پر بٹھا کر رکھے۔ جو وقتا فوقتا اس سے اظہار محبت کرے۔ آس پاس دوڑتی ہوئی نوکروں کی فوج ہو اور کبھی نہ ختم ہونے والے پیسے کی ریل پیل۔ بس یہی چند شرائط تھیں اس کی جو اس نے والدین کے سامنے واضح کردی تھیں کہ اس کے علاوہ وہ کسی کے ساتھ شادی کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ جب کہانیوں میں مظلوم، غریب ہیروئن کو اس کے سپنوں کا من چاہا شہزادہ مل سکتا ہے تو حقیقی زندگی میں ایسا کیونکر ممکن نہیں۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اس کے بوڑھے والدین اس کی شرائط کی لمبی سی فہرست سن کر دم بخود رہ گئے۔

یہ کہانی آج کے دور کی ہر دوسری تیسری لڑکی کی ہے جس نے کہانیوں کے ہیرو اور ڈراموں میں نظر آنے والے اداکاروں کو خوابوں میں بسا رکھا ہے۔ اپنی افسانوی دنیا کے شہزادوں کو وہ تخیل کے پردے سے نکل کر حقیقت کے روپ میں دیکھنے کی خواہشمند ہیں اور اسی خواہش کے سبب ان کی عمر ریت کی مانند ہاتھ سے پھسلتی جارہی ہے۔ آئیڈلزم کا شکار یہ لڑکیاں افسانوی دنیا کی باسی ہیں۔ جنہیں شادی کے بعد وہی مکمل زندگی چاہیے کہ شوہر انہیں دنیا بھر کی سیر کروائے، ساس گھر کے کام کے لیے نہ کہیں۔ شوہر کو اینیورسری، سالگرہ اور ہر خاص تہور ازبر ہو ۔حقیقت سے ماورا اس تصوراتی دنیا سے باہر آنے کا خیال ہی ان کے لیے سوہان روح ہے۔ شادی کے بعد جب حقیقت سے واسطہ پڑتا ہے اور ایسی لڑکیوں کے خواب چکنا چور ہوتے ہیں تو اکثر گھروں میں نتیجہ شکایتوں اور لڑائی جھگڑوں کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس آئیڈلزم کے چکر میں کئی لڑکیاں اپنے گھر خراب کرلیتی ہیں۔

اکثر لڑکیاں اپنے آئیڈیل ہیرو کی تلاش میں سوشل میڈیا پر موجود برے لوگوں کا نشانہ بنتی ہے جو کسی نہ کسی گروہ کی صورت میں اپنے مذموم مقاصد کے لیے ان کا استعمال کرنے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کی مصداق یہ خود ان کے جال میں جا پھنستی ہیں اور وہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ان کے گرد دائرہ تنگ کردیتے ہیں۔ یہی لڑکیاں اکثر و بیشتر ان کے ہاتھوں استعمال ہوکر بلیک میل بھی ہوتی ہیں۔ جب یہی آئیڈلزم کا بت ٹوٹتا ہے تو نتیجہ بدنامی، خود کشی یا زندگی بھر کے روگ کی صورت میں ملتا ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود ہر شخص برا یا کسی مذموم مقصد کے لیے موجود نہیں ہے لیکن احتیاط لازم ہے ، اسکرین کے پیچھے بیٹھے شخص کو آپ نہیں جانتیں۔ ضروری نہیں کہ بہن یا دوست کہنے والا شخص آپ کو بہن یا دوست سمجھتا بھی ہو نہ ہی اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کی ہی نیت خراب ہے ۔ سامنے والا شخص کیسا ہے یا اس کے دل میں کیا ہے اس بات سے آپ لاعلم ہیں لیکن اپنی حدود سے تجاوز نہ کرنا آپ کے اختیار میں ہے۔

اگر آپ افسانوی کرداروں سے متاثر ہیں یا کسی اداکار کی اداکاری کی فین ہیں تو اس پسندیدگی کو اس کردار تک ہی محدود رکھیے انہیں حقیقی زندگی میں تلاش کرنے کی کوشش نہ کیجیے۔ ایسا کرکے آپ اس سے کہیں بہتر انسان گنوا دیتی ہیں۔ کسی کی خوبیوں کا معترف ہونا برا نہیں ہے بر ا ہے حدود سے تجاوز کرنا اور اپنی زندگی کے حقیقی رشتوں کی دل آزاری کرنا یا اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لیے زندگی کی سچی خوشیوں سے منہ موڑ لینا یہ بھی کفران نعمت ہے۔

یاد رکھیے زندگی اس تصوراتی دنیا سے بے حد مختلف اور تلخ ہے جو ناولوں میں اور ڈراموں میں دکھائی جاتی ہے۔ چھوٹی عمر اور کچے ذہن کی لڑکیاں اکثر اسے ہی حقیقت تسلیم کرکے ایسی ہی زندگی کی خواہش کرتی ہیں۔ دونوں صورت میں نقصان خود ہی اٹھاتی ہیں۔ کہانیوں کو صرف کہانیاں سمجھ کر ہی پڑھا جائے اور ڈراموں کو صرف تفریح حاصل کرنے کے لیے دیکھا جائے تو مسئلہ اتنا بھی سنگین نہیں ہے۔ ہر عورت اپنے خوابوں کا محل بنا سکتی ہے اگروہ اس گھر کو محبت، چاہت اور خلوص سے تعمیر کرے۔ حقیقی زندگی کے حقیقی کرداروں سے محبت کیجیے یہی ہیں جو ہماری زندگی کا اہم جز ہیں اگرچے یہ افسانوی کرداروں کی طرح مکمل نہیں ہیں لیکن ان کی خامیوں سے ہی زندگی کا حسن ہے۔

جواب چھوڑ دیں