فکرمندی زندگی کا مظہرہے

کیاآپ بھی فکرمندہیں؟؟؟معاشرے کی تشویشناک حالت پر۔۔۔؟

ٹوٹتےہوےگھروندوں پر۔۔۔۔؟

اولاد کی نافرمانی پر۔۔۔۔۔؟

نسلِ نو کی اقداربیزاری پر۔۔۔۔؟

بےچینی کے بڑھنے پر۔۔۔۔؟

حرص وہوس کے عروج پر۔۔۔۔؟

خوف وہراس کی فضاپر۔۔۔؟

دھوکہ دہی پر۔۔۔۔؟

رشتوں سےاخلاص اٹھنےپر۔۔۔۔؟

باہمی عدم اعتمادپر۔۔۔۔۔؟

خالص محبت کی کمیابی پر۔۔؟

نفسیاتی امراض کےبڑھنےکی خوفناک رفتار پر۔۔۔۔۔۔؟؟؟

آخر ان سب کی وجہ کیا ہے؟

اس کی وجہ صرف غلامانہ سوچ اورطرزِ زندگی ہے !!!!!!

ہمارے چندکم علم اور تنگ نظر لوگ جو صرف ٹی وی کے آگے بیٹھ بیٹھ کے،ایک مخصوص راگ سن سن کے وہی زبان بولنے لگتےہیں،انھیں تو یہ حقیقت معلوم ہی نہیں ہےکہ ۔۔۔۔

جس وقت بغداد، قرطبہ اور غرناطہ کی جامعات میں مسلمان علما کے قلم علمی شاہکارتخلیق کر رہےتھے۔ نئے علوم الجبرا اور طبیعیات وغیرہ جنم لے رہےتھے۔ اسوقت یورپ نے کاغذکی شکل تک نہ دیکھی تھی۔

جب ایک تعلیم یافتہ اورترقی یافتہ قوم ایک کمتر اورجاہل قوم کی غلامی قبول کرلےتو ایساہی ہوتاہے!!!!

انگریز نے ہم پرغلبہ حاصل کرنےکےبعد جو نظام تعلیم ترتیب دیا اسکابانی لارڈ میکالے ہےجو خودان الفاظ میں مغرب کی پستی اور مشرق کی بلندی کااعتراف کرتا ہے۔

”میں نے ہندوستان کےطول و عرض کا سفر کیا ہے۔اسکے دوران نہ میں نے کوئی بھکاری دیکھا اورنہ ہی چور! وہاں کی اخلاقی اقدار بہت بلندہیں۔اور لوگ بہت ذہین ہیں۔ ہم شاید وہاں طویل عرصہ تک قبضہ رکھنے میں کامیاب نہ ہوپائیں۔

ہاں اگر ہم ان کی اصل ریڑھ کی ہڈی توڑدیں۔۔۔ تب ہی یہ ممکن ہے۔میرا مطلب ہے انکی روحانی اورثقافتی اقدار !!! اس مقصدکےحصول کےلیےتجویز پیش کرتاہوں۔ کہ ہمیں انکے قدیم اورپرانےنظام تعلیم اور انکی ثقافت کویکسرتبدیل کردینا چاہیے۔ اور اہلِ ہند کےذہن میں یہ بات بٹھادینی چاہیےکہ مغرب اور انگریزی سماج ان سےعظیم ترہے۔( دوسوسال سے یہ ایجنڈا اپنی تکمیل کے لیے ہاتھ پیر ماررہاہے) اس طریقے سے وہ اپنی عزت نفس اور آبائی کلچر دونوں کو بھلا کر وہ بن جائینگےجوہم چاہتے ہیں یعنی ایک ‘مفتوح قوم !!!“

آہ سفاک لٹیرو! مسلمانوں نے تو بارہافتح پائی مگر مفتوحان کی ثقافت کبھی تباہ نہیں کی مگرتم کمترہواس لیےکم ظرف! اور۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

آخر اس نے(نہیں بلکہ ہماری اپنی جہالت نے)ہمیں ایک مفتوح قوم ہی بنادیا کہ اب ہر طرح کی رہ نمائی کےلیےہم ان جاہل اقوام کی طرف دیکھتے ہیں جنکی سیاسی لغت میں اعلیٰ ظرفی، رواداری یاہمدردی کے الفاظ تک نہیں ہیں۔ اور جن کا خمیر ہی حسد ، ظلم ، تعصب اور نفرت سے اٹھاہے۔جب == بادشاہ ڈاکوئوں اور فقیروں کے آگے ہاتھ پھیلائینگے تو ان سے ظلم اور بزدلی کےسواکیاپانے کی امیدکی جاسکتی ہے؟؟؟

جان لو کہ—-

تہذیب کی بنیادعقیدے پرہے

اورہمارا عقیدہ۔۔۔!

خالص توحید ہے!!!

ہماری تہذیب کےہر ہر پہلو سے اطاعتِ الٰہی کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارے معاشرے پراللہ کی رحمت ہوتی ہے اور اسکے نتیجے میں خوشی اور سکون سےہماری انفرادی اوراجتماعی زندگیاں سرشار رہتی ہیں***

مگر ….

آج ہم نےاپنایا ہواہے کافروں کی تہذیب کو جس کی بنیاد انکے کافرانہ عقیدہ پرہے یعنی

* مادّے کی پرستش!

* سرمائے کی عزت!

* من مانی کی آزادی!

* فخروغرور کی دوڑ!

* کمزور پہ ظلم!

* ظلم دیکھتےہوئےبےحسی!

ہماراعقیدہ خدامرکز“

تہذیب ہورہی ہے”نفس مرکز“

اب صورت واقعہ یہ ہے کہ ہم دو مخالف سمت جانیوالی نائو میں سوار ہوگئے ہیں جس سے ہمارےمعاشرتی وجودکےپرزے پرزے ہوئے جارہےہیں۔

اوپر بیان کی گئی تمام آفات وبلائیں ہمارےملّی وجود کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ اورہمارے اندر موجودمیرجعفر میر صادق،سرسید اور اب تو چار چار آنے والے لفافہ کالم بھی انگریزوں کی چاپلوسی کرنے میں اپنا کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔

ہم انسانوں کی ایک بھیڑ بن کر رہ گئی ہیں ہم اربوں مسلمان چند لاکھ یہودی سرمایہ داروں کاگلّہ بن کررہ گئی ہیں کہ وہ جدھر چاہیں ہمیں ہانک رہے ہیں ۔

جبکہ ہمارا اوران کافرق صرف یہ ہے کہ وہ اپنی اصل پرآرہے ہیں ہم اپنی اصل سے دور ہٹ رہے ہیں

خوب جان لو کہ اپنی اصل کی طرف لوٹنے ہی میں عافیت ہے!!!!!!

جواب چھوڑ دیں