مسئلہ لوٹی ہوئی رقم کی تقسیم کا

منی لانڈرنگ کے مقدمے کا آغاز برطانیہ میں شروع تو کسی اور کے خلاف ہوا تھا۔ لیکن اب معلوم ہوا کہ مجرمان تو کوئی اور ہی ہیں۔ اسی طرح بیماری کے چرچے تو کسی اور ہی کے کئے گئے لیکن بہت سے پاکستان سے باہر زیر علاج ہیں اور کچھ پاکستان میں لا علاج قرار دیئے جانے والے ہیں اور عن قریب وہ بھی دنیا کے کسی نہ کسی اسپتال میں پڑے ہوئے نظر آئیں گے۔

بہت دولت مندوں کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کے علاج بھی سستے نہیں ہوا کرتے ہیں۔ اپنی اپنی جوانی میں جس دولت سے اپنی جائز و ناجائز خواہشات پوری کرتے اور عیاشیاں کرتے نہیں تھکتے وہی دولت ان کی آخری عمروں میں علاج کرانے میں لگ جاتی ہے اور جو بچی رہتی ہے وہ ان کی اولادوں کی عیاشیوں کے کام آتی ہے یا تقسیم میں اگر معاملہ اونچا نیچا ہو جائے تو ایک دوسرے کی گردنیں مارے جانے اور مقدمات کا سامنے میں لگ جاتی ہے۔ یہی کچھ آج کل ان سیاستدانوں یا ان کے سہولت کاروں کے ساتھ دیکھنے میں آرہا ہے جو پاکستان کی تقدیر پر ناگوں کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھے ہوئے ہیں اور جو قدرت کے پنجے میں ایسے پھنسے ہیں کہ ان کا اس پنجے کی گرفت سے باہر نکلنا محال ہی نظر آنے لگا ہے۔

ملک ریاض جو ایک موقع پر پاکستان میں اتنا مضبوط انسان سمجھا جاتا تھا کہ اگر چاہتا تو پاکستان ہی خرید لیتا لیکن آج وہ جتنا بے بس و لاچار نظر آرہا ہے یہ عبرت ہے۔ ان تمام لٹیروں کیلئے جو دونوں ہاتھوں سے اُس پاکستان کو برباد کرنے میں لگے ہوئے ہیں جو محض اس لئے وجود میں آیا تھا کہ یہاں وہ نظام نافذ ہوگا جو اللہ کا ہے اور جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نافذ کرنے کیلئے لے کر آئے تھے۔

جب کوئی کسی سے عہد باندھ کر توڑ دے تو وہ اُس کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ پاکستان بنانے والوں نے بھی اللہ سے ایک عہد کیا تھا لیکن 14 اگست 1947، رات ٹھیک 12 بج کر ایک سیکنڈ کے بھی ایک ہزارویں حصے کے اندر اندر اِس عہد کو فراموش کرکے اس ملک میں جس کو اللہ اور اس کے رسول کا نظام نافذ کرنے کیلئے بنایا گیا تھا، توڑ دیا گیا اور اس ملک میں اس قوم کے دستور اور آئین کو رائج کرنے کا اعلان کردیا جس کی 200 سالہ غلامی سے نجات حاصل کرنے کیلئے 200 سال سے نہ صرف جد و جہد کی جارہی تھی بلکہ ان 200 برسوں میں نہ جانے کتنے لاکھ مسلمان اپنی جانوں، عزتوں، آبروؤں اور مال کی قربانی دیتے آئے تھے۔

آج اگر ہم اپنی تباہی و بربادی کا دیانتداری سے تجزیہ کریں تو اس کا سبب وہی بد عہدی ہی ہوگا جو بندوں نے اپنے خالق سے کی تھی لیکن اس بات کو اب تک کوئی سمجھنے کیلئے تیار نہیں۔کسی قوم کی اس سے زیادہ کیا بربادی ہوگی کہ اسے غیروں سے زیادہ اپنے تباہ کرنے کے درپے ہوں۔ اسے لوٹ رہے ہوںاور نوچ نوچ کر کھا رہے ہوں۔ یہی صورت حال آج پاکستان کی ہے کہ اس کی ایک ایک رگ کا لہو نچوڑنے والے کوئی غیر نہیں بلکہ اپنے ہی ہیں اور ہر آنے والا دن پاکستان کے خون کو چوسنے والوں کی تعداد میں اضافہ در اضافہ کرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

پاکستان کا لہو چوسنے والے کچھ تو وہ ہیں جو میڈیا کی شہ سرخیاں بنے ہوئے ہیں ۔ جو میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہیں ان میں سے اکثر جیل کی رونقیں بڑھا رہے ہیں یا اسپتالوں کے بستروں پر لیٹ کر بیماریوں میں مبتلا ہونے کی کوشش کررہے ہیںاور کچھ وہ ہیں جن کے چہروں سے قدرت خود ہی نقاب الٹتی جا رہی ہے۔ ایسی شخصیات میں ایک ڈاکٹر عاصم کی شخصیت سامنے آتی رہی یا اب ملک ریاض کے چہرے کا دوسرا رخ سامنے آنا شروع ہو رہا ہے۔ کچھ وہ بھی ہیں جو امریکہ میں ڈیم فنڈ سے اپنے گھر کے آگے اپنے خلاف الزامات کے آگے پشتے باندھ کر بیٹھے ہوئے ہیں، کچھ دبئی اور برطانیہ میں بڑے بڑے سرے محلوں کے خریدار ہیں، کچھ پورے پورے اپارٹمنٹوں کے مالک ہیں اور کچھ کیلئے آسٹریلیا میں پورا پورا جزیرہ خریدنا بھی کوئی دھنیہ پودینہ خرید لینے کے برابر ہے۔

پاکستان میں کوئی ایک ملک ریاض نہیں جس نے پاکستان کے ہاتھ پیروں کی ایک ایک رگ میں “کینولا” نہ لگا رکھا ہو یہاں لاکھوں افراد ایسے ہیں جنھوں نے پاکستان کے جسم کی ایک ایک نس میں موٹی موٹی سوئیوں والے “کینولے” گاڑ رکھے ہیں جس میں سے وہ حسب حرص و ہوس لہو نکالتے رہتے ہیں بس فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ “جلی” ہیں اور کچھ “خفی” اور کچھ بہت نحیف ہیں اور کچھ “مختارِ کل”۔

حال ہی میں ملک ریاض صاحب کا نام جلی حرفوں کے ساتھ سامنے آیا ہے اور ایک ہی جھٹکے میں وہ اس بات کے پابند کر دیئے گئے ہیں کہ وہ 190 ملین پونڈ جرمانا ادا کریں تاکہ اس رقم کو حکومت پاکستان کے حوالے کیا جاسکے۔ 190 ملین پونڈ کی رقم تو وہ ہے جو بطورِ جرمانہ انھیں ادا کرنی ہے لیکن کسی کو اس بات کا کیا اندازہ ہے کہ اس رقم کا حجم کتنا ہے جو ابھی تک قانون کی نظروں سے پوشیدہ ہے۔

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ جس رقم کو حکومت پاکستان کے حوالے کیا جارہا ہے کیا وہ رقم حکومت پاکستان ہی کی ہے؟۔ کیا حکومت پاکستان سے ملک ریاض نے زمینیں لیکر اسے دھوکے میں رکھا اور زمینوں کی رقم ادا نہیں کی۔ کیا ملک ریاض نے بینکوں میں ڈاکا ڈالا، کیا اس نے سرکاری خزانے لوٹے اور کیا حکومت سے قرض لیکر اسے ادا نہیں کیا؟۔ اگر ایسا ہے تو پھر تو یہ رقم حکومت کی ہے اور اسے حکومت کے حوالے ہی کئے جاناہی مبنی بر انصاف ہے لیکن اگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے تواس رقم پر کسی بھی حکومت کا ذرہ برابر بھی کوئی حق نہیں بنتا۔

پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان ہی کیا، اس پوری دنیا کے سیکڑوں ملکوں میں کوئی ایک بھی اتنا بڑا پراپرٹی ڈیلر نہیں جو ملک ریاض کے برابر کا ہو۔ ایک ایسا پراپرٹی ڈیلر جو پاکستان کا سب سے بڑا پراپرٹی ڈیلر ہے۔ اس کی دولت کا سارا انحصار اس لین دین سے ہے جو عام لوگوں کے ساتھ ہے۔ کسی کی زمین پر قبضہ کرکے، کسی کو سستا بیچنے پر مجبور کرکے، کسی کو مقدمات کے جال میں پھنسا کے اور کسی کو کسی بھی ذریعے سے اپنی راستے سے ہٹانے کے بعد ہتھیائی گئی کوڑیوں کے مول زمینوں کو سونا کرکے فروخت کر کے جو دولت بھی حاصل ہوتی رہی اور اب تک حاصل ہورہی ہے، اسے پاکستان سے باہر منتقل کرتا رہا۔ اب کوئی انصاف سے بتائے کہ ایسا سب کچھ کرنے والا بغیر طاقتور اداروں کی پشت پناہی کے کرسکتا تھا؟۔ جس ملک میں ایک خوانچہ لگانے والا یا ایک ہاکر، گلیوں گلیوں گھوم کر بنا “بھتہ” اپنی ایک ٹافی بھی نہیں بیچ سکتا ہو وہ کھربوں کھرب کا کاروبار بغیر “سیکورٹی” کے کیسے کر سکتا ہے۔

ملک ریاض کی صورت میں جو چہرہ ہم سب کو نظر آرہا ہے اس کے پیچھے کوئی اور چہرہ پوشیدہ ہے یا نہیں یہ بحث ایک الگ موضوع ہے، لیکن بات ہو رہی ہے اس پیسے کی جو حکومت برطانیہ نے حکومت پاکستان کے حوالے کیا ہے، کیا اس جرمانے کی رقم پر حکومت پاکستان کا کوئی حق ہے؟۔

ایک خبر کے مطابق “بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے کے مرکزی درخواست گزار سید محمود اختر نقوی نے کہا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض سے لی گئی رقم پر وفاق کا نہیں بلکہ کراچی کا حق ہے۔ جمعہ کو محمود اختر کی جانب سے عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری برانچ میں دائر کی گئی درخواست میں کہا ہے کہ برطانیہ سے پاکستانی عدالت عظمیٰ کے حوالے کی جانے والی رقم کو اہل کراچی کی بہبود کے لیے استعمال کیا جائے”۔ یہاں بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وفاق ہو یا کراچی، اس رقم پرکوئی بھی حق دونوں کا کیسے ہو سکتا ہے۔ اس پر حق ان ہزاروں افراد کا ہے جو بحریہ ٹاؤن کے متاثرین میں سے ہیں۔ جن سے زمین چھین لی گئی ہے، زور زبردستی سے کم قیمت ادا کی گئی ہے، مقدمات کی دلدل میں پھنسایا گیا ہے اور وہ لوگ جو اپنے اپنے پلاٹوں کی ادائیگیاں تو پوری یا ادھوری کر چکے ہیں لیکن ان کو اب تک اس بات کا علم ہی نہیں ہو سکا ہے کہ ان کا پلاٹ خلا میں ہے یا ہواؤں میں ہے۔

یہ ہیں وہ ساری باتیں ہیں جن پر نہایت سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو حقوق العباد سے تعلق رکھتا ہے اور حقوق العباد پر ڈاکہ ڈالنا ایک ایسا جرم ہے جس کو اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں کرتا۔ اس لئے رقم کی وصولیابی کے بعد حکومت کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اس رقم کو حق داروں تک پہنچائے ورنہ اللہ کی پکڑ بہت ہی شدید اور دردناک شکل میں سامنے آئے گی، اس دنیا بھی اور بروز حشر بھی۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں