*چین میں مسلمانوں پر ظلم ، دنیا خاموش*

جیسے ہی اسماء نے فیس بک اکاؤنٹ لاگ ان کیا، ہر طرف ایک ہی تصویر نظر آئی۔ کسی نے پروفائل پکچر بنائی تو کسی نے ویسے اپنی وال پر شئیر کی ہوئی تھی۔ پہلے تو معاملہ سمجھ نہیں آیا۔ خیر چند لمحات میں سمجھ آگیا کہ فیس بک پر ہر طرف نظر آنے والی تصویر عمر دابہ نامی نوجوان کی ہے جس نے حال ہی میں ناروے میں قرآن کو جلانے سے روکنے کی کوشش کی۔

ایک دم اسماء پرسکتہ طاری ہو گیایہ سوچ کر کہ قرآن پاک وہ کتاب جو ہمیں عزیز تر ہے اس کی اتنی بے حرمتی کہ جلانے کی کوشش کی گئی اور ظاہری سی بات ہے ایسا کوئی واقعہ پیش آئے تو بندہ خاموش تماشائی تو نہیں بنا رہ سکتا اور اسی دکھ کو ہر مسلمان نے محسوس کیا اور سوشل میڈیا پر ری ایکشن بھی نظر آیا۔ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا ہے، تو جس کا ذمہ اللہ نے لیا اسے کون نقصان پہنچا سکتا ہے۔

بحثیت مسلمان اس کتاب قرآن پاک سے والہانہ سی محبت ہے، اور اگر کہیں کوئی بے حرمتی کی کوشش کرے تو ہم سارے کے سارے میدان میں آجاتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب یہ بھی دیکھنےکی ضرورت ہے کہ قرآن کی تعلیمات کیا ہیں، ان کو سیکھنے کا اہتمام ہم کس حد تک کرتے ہیں؟ انفرادی طور پر ہماری زندگیوں میں قرآن کی تعلیمات کہاں ہیں اور اجتماعی طور پر معاشرے میں ہم قرآن کے اصولوں سے صرفِ نظر کیے ہوئے ہیں لیکن اس پر ہم بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہمارے ہمسائے میں ہی، اسی کتاب کو ماننے والے ایغور مسلمان چین کے علاقےسنکیانگ میں رہائش پذیر ہیں۔ان پر ڈھائے جانے والے مظالم پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔

چینی حکومت نے انھیں کنسنٹریشن کیمپ میں رکھا ہوا ہے۔ وہ غلاموں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ ان پر ہر طرح کی مذہبی پابندی ہے، اپنے پاس قرآن بھی نہیں رکھ سکتے ہیں۔ مادری زبان تک بولنے پر پابندی ہے۔ وہ کوئی کاروبار کوئی کام اپنی مرضی سے نہیں کر سکتے ہیں۔

بیماری اور تشدد کی وجہ سے ایغور مسلمانوں کی اموات بھی ہو جاتی ہیں۔ لیکن کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ کسی صحافی تک کو ان کنسنٹریشن کیمپ کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، اور اگر کسی صحافی یا خبر رساں ادادے کو ایغور مسلمانوں سے ملنے کی اجازت دی بھی جائے تو انھیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ چینی حکومت کے احکامات کے مطابق بیان دیں کہ ایغور مسلمان اپنی مرضی سے کنسنٹریشن کیمپ میں رہ کرکچھ علوم سیکھ رہے ہیں۔ جبکہ انھیں زبردستی کمیونزم اور چینی ثقافت اپنانے پر مجبور کیا جا رہا ہوتا ہے۔

اسماء کا ذہن یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ قرآن کو اگرکوئی شخص جلانے کی کوشش کرے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قرآن کی بے حرمتی ہے اور قرآن کی بے حرمتی پر سب مہم جوئی کے انداز میں سوشل میڈیا پر متحرک ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے ہمسائے میں ہونے والی قرآن کی بے حرمتی پر ہر طرف خاموشی ہے۔

یہ بھی تو بے حرمتی ہی ہے کہ کسی مسلمان کو قرآن پڑھنے سے روکا جائے اور یہاں تک کہ قرآن کا نسخہ بھی اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ مظلوم کے لیے آواز اٹھانا بھی تو اسی قرآن کا سکھایا گیا سبق ہے، تو جب مظلوم پر ظلم ہوتا دیکھتے ہیں اور آواز نہیں اٹھاتے تو ہم اس کتاب کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال رہے ہیں۔ کوئی مہم ان ایغور مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف نظر نہیں آتی۔ خیر کیا کہا جا سکتا ہے کہ شاید پاک چین دوستی کا تقاضا یہی خاموشی ہے۔

جواب چھوڑ دیں