کراچی میں لاقانونیت کا راج

کراچی دنیا کے بڑے شہروں میں شمار ہونے والا ایک شہر ہے جس کی آبادی حکومت کے مطابق تو ایک کروڑ57لاکھ 41ہزار 406بتائی جاتی ہے تاہم دیگر ذرائع کہتے ہیں کہ کراچی کی آبادی دو کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔آج کراچی دنیا کے بڑے شہروں میں گیارہویں نمبر پر موجود ہے،جسے میگا سٹی کا درجہ بھی حاصل ہے۔

کراچی دنیا کی نظر میں کیا ہے اس کا ہمیں معلوم نہیں ،لیکن ہماری نظر میں کیا ہےیہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ کراچی میں حکومتی رٹ ختم ہوچکی ہے ،قانون بک چکا ہے جس کی وجہ سے آج کراچی میں ڈنڈے کے زور پر قائم کیاگیا امن بھی آہستہ آہستہ جواب دے رہا ہے۔ اس شہر ناتواں میں تمام سرکاری ادارے مفلوج ہوچکے ہیں ۔ کراچی گدھوں کے ہاتھوں میں ہے جو اسے روزانہ کی بنیاد پر نوچ نوچ کر ختم کررہے ہیں، جب کہ حکومتیں اپنی سیاست کو بچانے کے لیے جدوجہد کرتی نظرآتی ہیں ۔

مائی کلاچی کا شہر اب منافع خوروں ،لٹیروں ،چور اور ڈاکوئوں کی جنت بن چکا ہے ،جہاں قانون نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ اسی بات کا فائدہ ہر طاقتور مافیااٹھاتا نظرآتا ہے۔ اس شہر پر ہر قسم کی مافیا کا راج قائم ہے ، جس میں منافع خورمافیا،واٹر ٹینکر مافیا،ٹرانسپورٹ مافیا، ڈیری فارم مافیا،فلور مافیا،منڈی مافیا،پرائیوٹ ایجوکیشن مافیا،تھانہ کلچر مافیا،کے الیکٹرک مافیا ، واٹر اینڈ سیوریج مافیا،پارکنگ مافیا،قبضہ مافیااور اشیاء خورد ونوش مافیا مافیا سمیت کئی دیگر مافیا ز کے ہاتھوں کراچی والے یرغمال بن چکے ہیں جن کی آزادی کا اب کوئی تصور بھی باقی نہیں رہا۔

روزانہ کی بنیاد پر کراچی والوں کی جیب سے غیرقانونی اورناجائز طریقے سے اربوں روپے نکالے جارہے ہیں جن کا کوئی اعداد وشمار ریکارڈ پر موجود نہیں۔ایک فرضی اعداد شمار آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی میں صرف دودھ مافیا ہی شہریوں سے ناجائز طریقے سے روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے وصول کررہا ہے،ایک لیٹر دودھ کی قیمت سرکار نے 94روپے مقرر کی ہے مگر ایک عام دکاندار تک اس قیمت کو ماننے کو تیار نہیں اوروہ فی ایک لیٹر 110روپے اوربعض جگہوں پر120روپے وصول کررہا ہے۔ اگر صرف ایک علاقے کی بات کریں تو کم از کم 1000ہزار دکاندار روزانہ ایک ہزار روپے شہریوں سے اضافی وصول کرتا ہے تو یہ رقم دس لاکھ روپے بنتی ہے۔ صرف ایک علاقے سے دس لاکھ روپے وصول کرنے والے دکاندار ماہانہ 3کروڑ روپے شہریوں سے وصول کررہے ہیں۔ اسی طرح اگر پورے شہر کی دکانوں کی بات کی جائے تو یہ رقم اربوں روپے روزانہ بنتے ہیں۔ محکمہ فوڈ اتھارٹی ،کمشنر کراچی، مجسٹریٹ کے احکامات اور مختصر کارروائیاں محض بیرون ممالک اپنے آقائوں کو خوش اورعوام کو اپنے زندہ ہونے کا یقین دلانے کی ناکام کوشش کے مترادف ہیں۔

پانی شہریوں کی بنیادی ضرورت ہے ،مگر واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی نااہلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ پانی کی منصفانہ تقسیم کرنے میں مکمل ناکام ہوچکا ہے ،کئی علاقوں میں چھ ماہ اور کئی علاقوں میں 6سال گزرنے کے بعد بھی پانی فراہم نہیں کیاجاتا ہے جب کہ منظور نظر اور سیاسی اثر رورسوخ رکھنے والے علاقوں میں روزانہ کی بنیاد پر پانی فراہم کرکے سڑکوں تک کو نہلادیاجاتا ہے۔ اس غیر منصفانہ تقسیم کے پیچھے سرکاری افسران کی ٹینکر مافیاسے ملی بھگت ہے جو فی ٹینکر 3500سے 6000ہزارروپے وصول کررہے ہیں۔ اگر یہاں بھی ایک ہزار گھروں کا حساب کیاجائے تو فی ٹینکر 5000روپے کے حساب سے یہ رقم 50لاکھ روپے روزانہ اور ماہانہ 15کروڑ روپے بنتی ہے۔ اندازہ لگائیں یہ رقم سالانہ بنیاد پر کتنی بنتی ہوگی؟خیراسے بھی لاقانونیت کی ایک چھوٹی سی مثال ہی سمجھیں۔

پرائیوٹ اسکولوں کی بات کی جائے تو افسوس ہوتا ہے جب ہم سرکار کی بنائی گئیں بہترین عمارت کو بوسیدہ ہوتے دیکھتے ہیں ،جہاں فرنیچر زنام کی کوئی چیز نظرنہیں آتی،جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اور اساتذہ کا گھر بیٹھ کر تنخواہ وصول کرنا اب اس معاشرے میں عام ہوچکا ہے۔ دوسری طرف ایک 60گز کے مکان میںباتھ روم جتنے 6کمرے بناکر پرائیوٹ اسکول دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ،جہاں پڑھائی کے نام پر والدین کی جیبوں سے ماہانہ ہزاروروپے ناجائز طریقے سے بٹور لیے جاتے ہیں ،یہاں بھی اگر ہم صرف ایک ہزار اسکول والا معاملہ رکھیں اور فی اسکول میں کم از کم 200بچوں کی تعداد رکھی جائیں،فی بچہ فیس کم از کم 1000روپے کے حساب سے لگائیں تو یہ رقم 2لاکھ روپے بنتی ہے ،جب کہ ایک ہزار اسکول کی فیس جمع کی جائے تو یہ رقم 20کروڑ روپے بنتی ہے۔ اندازہ لگائیں پھر اس ملک میں پرائیوٹ اسکولز کا کاروبار کیوں نہ چمکیں جب ماہانہ صرف 1000ہزار اسکول ہی 20کروڑ روپے کماتاہو اور والدین کی جیب پرڈاکا ڈالاجاتا ہو؟ یہاں ایجوکیشن افسران کی آنکھوں پر پیسوں کی پٹی پہلے ہی باندھ دی جاتی ہے اورقانون کے ہاتھ بھی نوٹوں کی گڈیوں سے بھر دیے جاتے ہیں اس لیے ہی نہ کوئی قانون ان پر لاگو ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی آج تک عمل میں لائی گئی۔

بجلی کی بات کی جائے تو پرائیوٹ کمپنی کے الیکٹر ک اس وقت پورے پاکستان میں سب سے زیادہ اندھی کمائی کھانے والا ادارہ بنا ہوا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باوجود صارفین کی جیب سے پورے مہینے کا بل وصول کیا جاتا ہے ،جس میں مختلف ٹیکسز بھی شامل ہیں۔ اووربلنگ کا حساب کھربوں روپے اورتاریخ گزرنے کے بعد جرمانے کی رقم کا اندازہ لگاناتو بہت مشکل ہے۔ اگر یہاں پر بھی فی گھر بجلی کا بل 3000روپے ماہانہ کے حساب سے لگایاجائے تو یہ رقم 30لاکھ روپے بنتی ہے۔ اب اس میں 500گھر ایسے شامل کیے جائیں جو اووربلنگ کا شکار ہیں ،ان کے یونٹ میں گڑ بڑ کرکے دیکھیں تو یہ رقم فی گھر 500روپے اضافے کے ساتھ 2لاکھ 50ہزار روپے بنتے ہیں۔ اسی طرح جرمانے کی رقم بھی اگر اس میں شامل کی جائے تو یہ 5لاکھ روپے بنتے ہیں۔ مطلب فی گھر 3000ہزار بل دینے کے باوجود 500روپے اضافی دے رہا ہے۔ اب اگر اس جرمانے کو کراچی کی آبادی پر تقسیم کیاجائے تو یہ رقم کھربوں روپے ماہانہ بنتی ہے۔ مگر افسوس یہاں بھی قانون اندھا ہوچکا ہے جسے نہ تو غریب کی چیخ سنائی دیتی ہے اور نہ ہی غریب کا مرنا دکھائی دیتا ہے۔ حکومت سے تو پہلے ہی توقع رکھنا فضول ہے۔

کراچی میں جگہ جگہ پارکنگ مافیا کا راج ہے ،فی موٹر سائیکل 20روپے اور فی کار 50سے 100روپے وصول کیے جارہے ہیں۔ پورے شہر میں انگنت غیرقانونی پارکنگ بنائی گئی ہیں، لیکن یہاں بھی صرف ایک ہزار پارکنگ کا ذکر کیاجائے اور روزانہ ایک ہزار ہی موٹرسائیکل فیس اورایک ہزار کار فیس کا حساب کریں تویہ رقم روزانہ کی بنیاد پرموٹرسائیکل فیس20ہزار اورکار فیس ایک لاکھ روپے بنتی ہے۔ ماہانہ فیس کو جمع کریں تو موٹر سائیکل کی فیس 6لاکھ روپے اورکار فیس30لاکھ روپے بنتے ہیں۔ مطلب 36لاکھ روپے ایک ہزار پارکنگ مافیا عوام سے وصول کررہا ہے ،یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے اصل اعداد وشمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔لیکن یہاں ٹریفک پولیس مافیا کی جیب گرم کی جاتی ہیں اس لیے یہاں بھی لاقانونیت عروج پر ہے۔ صرف ٹیکنو سینٹرپارکنگ کا ٹھیکہ ہی ماہانہ 4کروڑ روپے بتایاجاتا ہے۔

اس لاقانونیت میں کراچی کے شہری مکمل طورپر جکڑے جاچکے ہیں ،انہیں اس طرح بے بس کردیاگیا ہے کہ وہ اپنے حق کے لیے اگر آواز بلند بھی کرنا چاہیں تو ان کی آواز پراب کوئی کان نہیں دھرتا۔ اس لاقانونیت کے راج کو قائم کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ ہمارے مفاد پرست سیاستدانوں کا ہے جنہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ عوام کیا چاہتی ہے ،انہیں اس بات سے مطلب ہوتا ہے کہ عوام کی جیب سے مال کیسے نکالا جائے اور انہیں مرنے بھی نہ دیا جائے ۔ کراچی آج اس لاقونیت کی بھینٹ چڑ ھ چکا ہے ،جسے سدھارنا شایداب کسی کے بس کی بات نہیں ۔ صرف موٹر سائیکل سوار کے چالان دیکھ لیں صرف وہ ہی روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں روپے بنتے ہیں ،جب کہ اس مد میں لی جانے والی رشوت کا کوئی اعداد وشمار دستیاب نہیں،وہ لامحدود ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ایک عام شہری روزانہ 500 سے 800روپے رشوت،پارکنگ مافیا،ایجوکیشن مافیا،فلور مافیااورٹینکر مافیا کو دینے پر مجبور ہوچکا ہے ،اورصرف 500روپے ہی ایک کروڑ 57لاکھ 41 ہزار 406افراد پرضرب دیے جائیں تو یہ رقم 8ارب روپے کے لگ بھگ بنتی ہے۔ جب کہ وزیراعظم صاحب خود فرما چکے ہیں کہ ملک میں 12ارب روپے روزانہ کی بنیاد پر کرپشن ہورہی ہے۔ اندازہ لگائیں کہ صرف کراچی والے ہی 8ارب روپے بطور کرپشن اپنے جائز پیسے ناجائز لوگوں کو دینے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ مگر نام نہاد جمہوری حکومتوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں